وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ
اور جس دن اہل کفر آگ کے سامنے (١٤) لائے جائیں گے، ان سے کہا جائے گا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں ہی اپنی نعمتیں ختم کرلی، اور ان سے لذت اندوز ہوچکے، پس آج تمہیں زمین میں تمہارے ناحق تکبر اور تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے ذلت کا عذاب دیا جائے گا
[٣١] کافروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے :۔ کافروں اور آخرت کے منکروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص رفاہ عامہ کے لیے کوئی ہسپتال یا اس کا کوئی کمرہ بنواتا ہے۔ تو اس سے اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کی سخاوت کی شہرت ہو اور لوگ اس کو اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ تو یہ بدلہ اسے دنیا میں مل جاتا ہے۔ اس کے نام کا کتبہ ہسپتال کے کمرہ کے باہر لگا دیا جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ کسی دوسرے کی طرف سے اخبارات و رسائل میں اشتہار یا خبر بھی شائع کرا دی جاتی ہے اس طرح اسے وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے اس نے یہ اچھا کام کیا تھا۔ غرضیکہ ایسے کافروں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مال و اولاد، حکومت، تندرستی، عزت و شہرت وغیرہ کی شکل میں دے دیا جاتا ہے۔ رہا آخرت میں اجر کا معاملہ تو یہ نہ ان کا مطلوب تھا اور نہ ہی اسے یہ مل سکے گا اور انہیں واضح طور یہ بتادیا جائے گا کہ تم اپنے اچھے کاموں کا بدلہ دنیا میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو۔ لہٰذا آج تمہارے لیے کچھ نہیں۔ دنیا میں مال و دولت کی فراوانی، اولاد، عزت اور تندرستی وغیرہ نعمتیں کافروں کو ہی نہیں ملتیں۔ اللہ کے نیک بندوں کو بھی ملتی ہیں اور مل سکتی ہیں۔ مگر ان کا انداز فکر اور ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا طریق کافروں اور آخرت کے منکروں سے بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : مومنوں کا انداز فکر :۔ سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابراہیم کہتے ہیں کہ ایک دن عبدالرحمن بن عوف (ان کے والد) نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ شام کے وقت روزہ افطار کرنے کے لیے جب ان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو (کھانے کی نعمتیں دیکھ کر) کہنے لگے۔ مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ (احد کے دن) شہید ہوئے۔ وہ مجھ سے اچھے تھے۔ ایک ایسی چادر میں ان کو کفن دیا گیا کہ اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے رہ جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا رہ جاتا تھا اور حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی اسی دن شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر اس کے بعد ہم لوگوں کو آسودگی اور فراوانی دی گئی اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری نیکیوں کا ثواب جلدی سے ہمیں دنیا میں نہ مل گیا ہو۔ پھر اس کے بعد رونے لگے اور اتنا روئے کہ کھانا بھی نہ کھایا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد) [٣٢] یعنی بلاوجہ تم دنیا میں اکڑتے تھے۔ احکام الٰہی کو تسلیم کرنے میں اپنی توہین سمجھتے تھے اور ایماندار لوگوں کو ذلیل سمجھتے تھے۔ لہٰذا آج تمہاری اکڑ توڑ دی جائے گی اور نافرمانی کے بدلے تمہیں جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اور دوسروں کو ذلیل سمجھنے کے بدلے تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا تاکہ جہنمی بھی تمہیں ذلیل مخلوق سمجھیں۔