سورة الأحقاف - آیت 18

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی بات صادق آگئی (کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا) جنوں اور انسانوں کی ان جماعتوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گذر چکی ہیں، بے شک وہ لوگ گھاٹا اٹھانے والے تھے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٨] یعنی ایسے ضدی لوگ جو نہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور نہ عقلی دلائل کو تسلیم کرتے ہیں ان پر اللہ کا یہ قول فٹ آتا ہے کہ میں جنوں اور انسانوں کی ایک کثیر تعداد سے جہنم کو بھردوں گا۔ اور یہ قول بھی دراصل ابلیس کی اس بات کے جواب میں ہے۔ جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کہی تھی کہ میں تیری ساری مخلوق کو گمراہ کرکے چھوڑوں گا۔ کوئی چند تیرے مخلص بندے میرے داؤ سے بچ جائیں تو الگ بات ہے۔ یہ آخرت کا منکر بیٹا بھی انہی جہنم میں داخل ہونے والوں یابالفاظ دیگر ابلیس کے ہتھے چڑھنے والوں میں سے ہے۔ [٢٩] آخرت کے منکر دنیا اور آخرت دونوں جگہ خسارے میں :۔ آخرت کے منکر کو دنیا میں تو یہ خسارہ ہوتا ہے کہ وہ گناہوں پر دلیر ہو کر ایمان و سعادت کا وہ بیج بھی ضائع کردیتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہر آدمی کے دل میں فطری طور پر ڈال رکھا تھا۔ پھر جب وہ گناہوں پر ملامت کرنے والے ضمیر کا ہی گلا گھونٹ دیتا ہے تو اسے راہ راست پر لانے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی اور آخرت میں اس کا خسارہ یہ ہے کہ اگر اس نے زندگی میں کوئی اچھے کام کئے بھی تھے تو ان کا اسے کوئی صلہ نہ ملے گا۔ اس لیے کہ اس نے آخرت میں اجر ملنے کی نیت سے وہ کام کئے ہی نہ تھے۔ اس طرح اس کے گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے۔