قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میں اللہ کے پیغمبروں میں کوئی انوکھا (٧) نہیں (کہ وہ کر دکھاؤں جو دوسرے انبیاء نہیں کرسکے) اور میں نہیں جانتا کہ (دنیا میں) میرے ساتھ کیا کیا جائے گا، اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا، میں تو صرف ان احکام کی پیروی کرتا ہوں جو بذریعہ وحی مجھ تک پہنچتے ہیں، اور میں تو صرف ایک کھل کر ڈرانے والا ہوں
[١٢] یعنی رسالت کا سلسلہ کچھ مجھ سے ہی شروع نہیں ہوا مجھ سے پہلے ہزاروں پیغمبر اور سینکڑوں رسول گزر چکے ہیں۔ سب کی تعلیم یہی تھی جو میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ میں کوئی نئی اور نرالی بات تم سے نہیں کہتا۔ جسے تم صریح جادو یا بناوٹی باتیں کہہ رہے ہو۔ [١٣] کسی کے انجام کی یقینی خبرصرف اللہ کو ہے :۔ اس جملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اور تمہارے خیال کے مطابق اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو۔ اس کا نتیجہ میرے حق میں کیا نکلنے والا ہے اور تمہارے حق میں کیا ہوسکتا ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم نہ ہی کوئی بات میرے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں تو صرف یہ بات ہے کہ جو کچھ میری طرف وحی کی جارہی ہے اس کی پیروی کرتا جاؤں اور جو پیغام مجھے اللہ کی طرف سے ملا ہے وہ تمہیں پہنچا دوں اور تمہیں تمہارے انجام سے مطلع کر دوں اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ قیامت کے دن مجھ سے یا تم سے کیا سلوک ہونے والا ہے۔ یہ میں نہیں جانتا میں صرف تمہیں یہ بتائے دیتا ہوں کہ برے اعمال کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ اور اس پہلو کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ خارجہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ام علاء انصار کی ایک عورت تھی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی اس نے کہا کہ جب انصار نے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے قرعہ ڈالا تو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا قرعہ ہمارے نام نکلا۔ وہ ہمارے پاس رہنے لگے۔ وہ بیمار ہوگئے ہم نے ان کی تیمار داری کی۔ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے انہیں کفن پہنایا تو رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ اس وقت میں نے کہا :’’ابوالسائب ! (یہ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تمہیں عزت دی‘‘ رسول اللہ نے مجھ سے پوچھا :’’تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے معلوم نہیں‘‘ تب آپ نے فرمایا۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی موت واقع ہوگئی اور مجھے اس کی بھلائی کی امید ہے۔ (لیکن یقین کے ساتھ میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا) اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں لیکن میں بھی نہیں جانتا کہ اس سے کیا سلوک کیا جانے والا ہے۔ ام علاء کہتی ہیں : اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کبھی کسی کی ایسی تعریف نہیں کی۔ (بخاری۔ کتاب الشہادات۔ باب القرعۃ فی المشکلات)