سورة الدخان - آیت 3

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک ہم نے اسے ایک برکت والی رات (٣) میں نازل کیا ہے، ہم نے بے شک (اس کے ذریعہ انسانوں کو) ڈرانا چاہتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] لیلۃ القدر اور شب برات ایک ہی رات ہے :۔ یعنی جس رات قرآن نازل ہوا وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی۔ کیونکہ اس رات کو تمام دنیا کی ہدایت کا اہتمام کیا جارہا تھا۔ اس مقام پر اس رات کو ﴿لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ﴾ کہا گیا اور سورۃ القدر میں ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ یعنی بڑی قدر و منزلت والی رات یا وہ رات جس میں بڑے اہم امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ مطلب دونوں کا ایک ہی ہے بالفاظ دیگر ایک ہی رات کو یہاں ﴿لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ﴾ کہا گیا ہے اور سورۃ القدر میں ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ اور سورۃ بقرہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے ہے کہ یہ رات ماہ رمضان المبارک کی رات تھی۔ (٢: ١٨٥) اور احادیث صحیحہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ یہ رات ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے۔ اور اکثر اقوال کے مطابق یہ رمضان کی ستائیسیویں رات ہوتی ہے۔ مگر بعض ناقابل احتجاج روایات کی بنا پر بعض لوگوں نے اس رات کو دو الگ الگ راتیں قرار دے لیا یعنی ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ کو تو رمضان کے آخری عشرہ میں ہی سمجھا اور ﴿لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ﴾ کو ماہ شعبان کی پندرہ تاریخ قرار دے دیا۔ اور اس کا نام شب قدر یا شب برات رکھ لیا۔ حالانکہ شب کا لفظ لیلۃ کا فارسی ترجمہ ہے اور برات کا لفظ قدر کا۔ گویا ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ﴾ کا ہی فارسی زبان میں ترجمہ کرکے ایک دوسری رات بنا کر اس کا تہوار منانے لگے اور اس میں پٹاخے اور آتش بازی چلانے لگے۔ گویا جو کام ہندو اپنے دسہرہ کے موقع پر کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں نے شب برات سے متعلق کرکے اپنے تہوار منانے کے شوق کو پورا کرلیا۔ رہی یہ بات کہ کیا سارے کا سارا قرآن اسی رات اترا تھا جیسا کہ بظاہر اس سورت اور سورۃ القدر سے معلوم ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی لوح محفوظ سے نقل کرکے فرشتوں اور بالخصوص جبرئیل علیہ السلا م کے حوالہ کردیا گیا تھا۔ یا یہ سارا قرآن آسمان دنیا پر اتار دیا گیا تھا۔ پھر یہ وہاں سے حسب موقع و ضرورت تئیس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔ البتہ سورۃ علق کی پہلی پانچ آیات اسی رات رسول اللہ پر غار حرا میں نازل ہوئی تھیں۔ [٢] یعنی قرآن کریم کے نازل کرنے سے ہمارا مقصود یہ تھا کہ اس سے تمام اہل عالم کو ان کے انجام سے خبردار کیا جائے اور ان کی گمراہی اور برے اعمال کی سزا سے انہیں ڈرایا جائے۔