وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ
اور آپ ہمارے ان رسولوں سے پوچھ (١٩) لیجیے جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، کیا ہم نے رحمن کے علاوہ دوسرے معبود بنائے ہیں جن کی عبادت کی جائے
[٤٤] بعد از موت انبیاء کی زندگی کے قائلین اور ان کا رد :۔ اس آیت میں واسْئَلْ کا مطلب اکثر مفسرین نے دو طرح سے بیان کیا ہے ایک یہ کہ ان انبیاء کے وارث علماء یا علمائے بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ ان رسولوں کی کتابوں میں تلاش کرکے دیکھو کہ ان میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ہم نے اپنے علاوہ کچھ اور بھی الٰہ بنا دیئے ہیں جن کی عبادت کی جایا کرے۔ لیکن کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو انبیاء و اولیائے کرام کی عرصہ برزخ میں مکمل زندگی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی وہ لوگوں کی پکار سنتے بھی ہیں اور ان کا جواب بھی دیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی آگے ان کے تصرف کا یہ حال ہے۔ وہ پکارنے والے کی مشکل کشائی اور حاجت روائی بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک صاحب اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’اگر انبیاء کرام میں حیات نہ ہوتی۔ وہ خطاب و ندا کو نہ سمجھتے ہوتے اور جواب دینے کی قدرت ان میں نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو انبیاء و رسل سے دریافت کرنے کا حکم نہ فرماتا‘‘ ایسے حضرات چونکہ عموماً بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہاں ترجمہ احمد رضا خان بریلوی (کنزالایمان) پر حاشیہ نمبر ٤٥ از نعیم الدین مراد آبادی درج کرتے ہیں : ’’رسولوں سے سوال کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کے ادیان و ملل کی تلاش کرو۔ کہیں بھی کسی نبی کی امت میں بت پرستی روا رکھی گئی ہے؟ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ مومنین اہل کتاب سے دریافت کرو۔ کیا کسی نبی نے غیر اللہ کی عبادت کی اجازت دی؟ تاکہ مشرکین پر ثابت ہوجائے کہ مخلوق پرستی نہ کسی رسول نے بتائی نہ کسی کتاب میں آئی۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ شب معراج سید عالم نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے جبرئیل نے عرض کیا کہ اے سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے سے پہلے انبیاء سے دریافت فرما لیجئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی اور کی عبادت کی اجازت دی ؟ حضور نے فرمایا کہ اس سوال کی کچھ حاجت نہیں یعنی اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ تمام انبیاء توحید کی دعوت دیتے آئے۔ سب نے مخلوق پرستی کی ممانعت فرمائی‘‘ (سورہ زخرف کا حاشیہ نمبر ٤٥ از نعیم الدین مراد آبادی) اب دیکھئے اس حاشیہ میں جس روایت کا ذکر ہے وہ غلط معلوم ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سورۃ زخرف کی یہ آیت واقعہ معراج سے کافی عرصہ بعد نازل ہوئی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل جس میں واقعہ اسراء کا ذکر ہے، کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر ٥٠ ہے۔ جبکہ سورۃ زخرف کا ترتیب نزول کے حساب سے نمبر ٦٣ ہے۔ معراج کا واقعہ ہجرت سے ڈیڑھ دو سال پہلے کا ہے۔ جبکہ سورۃ ہذا اس وقت نازل ہوئی جبکہ کفار آپ کی جان کے درپے تھے۔ جیسا کہ اس سورۃ کی آیت نمبر ٧٩۔ ٨٠ سے واضح ہے۔ لہٰذا قبل از نزول آیت مذکورہ جبرئیل کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا کہ ان رسولوں سے پوچھ لیجئے اور پھر پوری آیت پڑھ جانا کیسے ممکن ہے؟