وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
اور کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس سے اللہ بات (٣٠) کرے، سوائے اس کے کہ اس پر وحی نازل کرے، یا کسی اوٹ کے پیچھے سے، یا کسی رسول کو بھیجے جو اس کی اجازت سے، وہ جو چاہے، اس کی وحی پہنچا دے، وہ بے شک سب سے اونچا، بڑی حکمتوں والاہے
[٧١] وحی کے مختلف طریقے :۔ اس آیت میں لفظ وحیا اپنے لغوی معنی (سریع اور تیز اشارہ۔ یعنی القاء و الہام) کے معنوں میں آیا ہے اور لفظ یوحی اپنے اصطلاحی معنوں میں (یعنی اللہ کا اپنے نبی کو فرشتہ کے ذریعہ پیغام بھیجنا) استعمال ہوا ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے کسی انسان سے کلام کرنے کے تین طریقے مذکور ہیں : (١) القاء یا الہام۔ اس قسم کی وحی غیر نبی کو بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے ام موسیٰ کو ہوئی تھی۔ (٢٨: ٧) بلکہ غیر انسان کی طرف بھی ہوسکتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی (١٦: ٦٨) اور ایسی وحی انبیاء کو خواب میں بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے سیدنا ابراہیم کو یہ خواب آیا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں۔ (٣٧: ١٠٢) (٢) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پردے کے پیچھے سے بات کرے اور پردہ کا مطلب ہے کہ انسان اللہ کا کلام سن تو سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے اس مادی جسم اور ان ظاہری حواس سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن ہے۔ ایسی بات چیت اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور کے دامن میں کی تھی۔ مگر آپ دیدارِ الٰہی کی تمنا اور سوال کے باوجود اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکے تھے۔ (٣) فرشتہ بھیجنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جبرئیل علیہ السلام نبی کے دل پر نازل ہو اور اسے اللہ کا پیغام پہنچائے۔ تمام کتب سماویہ کا نزول اسی طرح ہوا ہے۔ اور دوسری یہ کہ فرشتہ انسانی شکل میں سامنے آکر کلام کرے۔ جیسے فرشتے سیدنا ابراہیم اور سیدنا لوط علیہ السلام کے پاس آئے تھے۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے اسحق علیہ السلام کی خوشخبری دی تھی۔ اور سیدنا لوط علیہ السلام کو ان کی قوم پر عذاب آنے کی خبر دی تھی اور ایسی وحی غیر نبی کی طرف بھی ہوسکتی ہے جیسے سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے سیدہ مریم کے سامنے آکر بیٹے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی تھی۔