إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
اگر تمہیں زخم (96) لگا ہے، تو تمہاری طرح تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بلدتے رہتے ہیں، اور تاکہ اللہ مومنوں کو جان لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید بنائے اور اللہ ظلم کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا
[١٢٦] جنگ بدر میں کافروں کو اس سے زیادہ صدمہ پہنچا تھا۔ اس وقت کافروں کے ستر سردار قتل ہوئے تو ستر گرفتار بھی ہوئے۔ جب کہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوگئے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کا ایک آدمی بھی گرفتار نہ ہوا۔ کیونکہ با لآخر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور قریش مکہ کو پسپا ہونا پڑا تھا۔ غزوہ احد میں وقتی شکست کی حکمتیں :۔ اس آیت میں شکستہ دل مسلمانوں کو ڈھارس بندھائی جارہی ہے۔ پھر اس شکست کی بعض حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ خوشی اور غمی، فتح و شکست، کامرانی و ناکامی، خوشحالی و تنگدستی ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں میں ہر کسی کو پیش آتی رہتی ہیں۔ اس لیے اگر مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست ہو بھی گئی تو غمزدہ اور بددل ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ انہیں کافروں کی طرف دیکھنا چاہئے جو میدان بدر میں بری طرح مار کھانے کے باوجود پھر سے نئے عزم کے ساتھ باطل کی حمایت میں لڑنے آگئے ہیں۔ دوسری حکمت اس غزوہ میں یہ ہے کہ سچے مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجائے، جسے تم لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ ﴿وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَا﴾ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا درجہ نصیب ہو۔ [١٢٧] ظالم لوگوں سے مراد وہی منافقوں کی جماعت ہے جو عبداللہ بن ابی کے ساتھ واپس چلی گئی تھی اور جس موقعہ پر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو یہ لوگ مسلمانوں میں بددلی پھیلانے میں پیش پیش تھے۔