سورة الشورى - آیت 37

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی ( کی باتوں اور کاموں) سے بچتے ہیں، اور جب انہیں (کسی پر) غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٣] بڑے بڑے گناہوں کی تفصیل کے لیے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے : [٥٤] فحاشی اور اس کا دائرہ :۔ فحاشی سے مراد ہر وہ کام ہے جو انسان کی قوت شہوانیہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اسلام نے جنسی چھیڑ چھاڑ اور حاجت پوری کرنے کے لیے شرعی نکاح کی راہ کھول دی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی طریقے ممکن ہیں ان سب پر پابندی لگا دی ہے۔ مثلاً زنا، اغلام، لواطت، مشت زنی، عورتوں کی عورتوں سے ہمبستری۔ جانوروں سے بدفعلی وغیرہ۔ سب حرام اور بدترین جرم ہیں۔ اور ان سب کو ﴿فَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ﴾ کہا جاتا ہے اور جو باتیں زنا سے قریب لے جانے والی ہیں وہ سب فواحش میں داخل ہیں۔ مثلاً بدنظری یا غیر محرم کی طرف دیکھنا، عورتوں کا اپنی زینت اور حسن کے مقامات کی کھلے بندوں نمائش کرنا۔ آزادانہ اختلاط مرد و زن، فحش گالی گلوچ، غیر مرد اور غیر عورت کی خلوت، یا عورتوں کا بغیر محرم کے سفر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں فحش قسم کی خبروں کو پھیلانا بھی فحاشی میں داخل ہے آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں پیدا ہوچکی ہیں۔ مثلاً تھیٹر، سنیما گھر، کلب ہاؤس، ہوٹل، ریڈیو پر زہد شکن گانے، ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام، فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول، افسانے اور ڈرامے وغیرہ۔ اخبارات و اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ غرضیکہ فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے۔ ایمانداروں کا کام یہ ہے کہ ایسے فحاشی کے سب کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بچنے کی تلقین کریں۔ [٥٥] غصہ اور اس کا جائز استعمال :۔ اس جملہ میں قوت غضبیہ پر کنٹرول رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ غصہ میں عموماً آدمی کی عقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں اور بعض دفعہ وہ ایسی غلط حرکتیں کر بیٹھتا ہے جن پر اسے بعد میں سخت ندامت ہوتی ہے۔ مومن کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات سے متعلق انتقام کے معاملہ میں اللہ سے ڈر کر درگزر اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں اور اگر کسی بات پر غصہ آجائے تو اسے پی جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ غصہ اتنی بری چیز نہیں کہ انسان کو کسی وقت بھی نہ آئے بلکہ جہاں دین کی تضحیک ہو رہی ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جارہا یا خلاف شرع کام ہو رہا ہو وہاں انسان کو غصہ آنا ہی چاہئے۔ غصہ اگر کلیتاً بری ہی چیز ہوتی تو اللہ اسے پیدا ہی نہ کرتا۔ اسے ہم دوسرے الفاظ میں دینی حمیت یا غیرت بھی کہہ سکتے ہیں اور ایسے مقام پر غصہ بعض دفعہ بڑے بڑے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ایسا ہی تھا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’اللہ کی قسم! آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا جب وہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ البتہ اگر کسی نے اللہ کی قابل احترام باتوں کی توہین کی تو آپ نے اللہ کے لیے اس سے بدلہ لیا‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب اقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب غصہ آیا تو آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا جیسے کسی نے چہرہ پر انار نچوڑ دیا جو مثلاً فاطمہ مخزومی قریشی کی چوری کا مقدمہ پیش ہوا تو قریشیوں نے سیدنا اسامہ بن زید کو سفارش کے لیے کہا۔ سیدنا اسامہ نے سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور فرمایا :’’اسامہ! تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد۔۔) اسی طرح ایک دفعہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عشا کی نماز میں سورۃ بقرۃ شروع کردی ایک دیہاتی نے نماز توڑ کر اپنی الگ نماز پڑھ لی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا معاذ پر سخت ناراض ہوئے اور تین بار فرمایا : ''افتّان انت یا معاذ؟" ’’معاذ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من لم یر اکفار من قال ذلک متاوّلا او جاھلا) اور ایسی اور بھی مثالیں بہت ہیں۔ غصہ کو ضبط کرنے کا حکم :۔ رہا ذاتی انتقام کا مسئلہ تو اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ کو ضبط میں رکھے‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الحذر من الغضب) نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ : مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’غصہ مت کیا کر۔ اس نے دوبارہ، سہ بارہ یہی بات پوچھی تو آپ ہر بار یہی کہتے رہے کہ غصہ مت کیا کر‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الحذر من الغضب)