إِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اگر وہ چاہے تو ہوا کو روک دے، پس وہ جہاز سمندر کی پشت پر ٹھہر جائیں، بے شک اس میں ہر بڑے صابر و شاکر بندے کے لئے نشانیاں ہیں
[٤٧] قرآن میں اکثر مقامات پر کشتیوں کی روانی کو اللہ کی آیات میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ قریش مکہ کو تجارتی سلسلہ میں افریقہ کے ساحلی علاقہ سے تجارت کے لیے بحیرہ احمر کا سفر درپیش رہتا تھا۔ اس دور میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جن کی روانی اور رفتار کا انحصار باد موافق پر اور اس کی رفتار پر ہوتا تھا۔ انہیں بتایا یہ جارہا ہے کہ تمہاری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ جب تمہاری کشتی وسط سمندر میں پہنچ جائے اور اللہ تعالیٰ ہوا کو ساکن کردے تو بتاؤ اس وقت تم کیا کرسکتے ہو؟ [٤٨] صبار اور شکور دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور یہ دو ایسے الفاظ ہیں جن میں مومن کی ساری زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ یعنی مومن پر جب بھی کوئی مصیبت یا تکلیف آتی ہے تو وہ صبر اور برداشت سے کام لیتا ہے۔ اور جب بھی اللہ کی کوئی نعمت ملتی ہے یا اسے بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کا احسان مند ہوتا اور اس کا شکر ادا کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک کافر اور دنیادار انسان کا یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ مصیبت پڑنے پر جزع فزع کرتا، اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر اسے کو سنے لگتا ہے۔ اور جب اسے کوئی بھلائی نصیب ہوتی یا خوشحالی کا دور آتا ہے تو پھر وہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔ گویا ایک مومن کو سمندر کے سفر میں صبر اور شکر کا اکثر موقع ملتا رہتا ہے۔ وہ سازگار حالات میں اللہ کا شکر کرتا ہے اور اگر ہوا بند ہوجائے تو اس کی نظر اللہ ہی پر رہتی ہے اور صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔