وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ
اور تمہیں جو مصیبت (٢١) بھی لاحق ہوتی ہے، تو وہ تمہارے کئے کا نتیجہ ہوتی ہے، اور وہ (تمہاری) بہت سی خطائیں معاف کردیتا ہے
[٤٥] مصائب کی قسمیں اور مختلف اسباب :۔ یہاں ایک عام اصول بیان کردیا گیا ہے کہ اکثر عذاب مثلاً قحط، وبائیں، زلزلے اور سیلاب وغیرہ لوگوں کے اپنے ہی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قحط کا عذاب اہل مکہ پر بھی نازل ہوا تھا۔ جو سات سال تک مسلط رہا۔ بارشیں بھی بند ہوگئیں اور باہر سے غلہ آنا بھی بند ہوگیا تھا۔ اس عرصہ میں لوگوں کا یہ حال ہوگیا کہ جانوروں کے چمڑے اور ہڈیاں کھانے تک مجبور ہوگئے۔ شدت بھوک کی وجہ سے یہ حال ہو رہا تھا کہ آسمان کی طرف دیکھتے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ اور یہ قحط کفار مکہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی وجہ سے نازل ہوا تھا۔ آخر ابو سفیان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر قرابت کا واسطہ دیا اور بارش کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی۔ گویا جب اکثر لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آتا ہے توہ سب مخلوق کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ انسان کو اکثر بیماریاں غذا میں بد پرہیزی کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں اور دودھ پیتے بچوں کو ماں کی بدپرہیزی کی وجہ سے۔ تاہم اس اصول میں بھی چند مستثنیات موجود ہیں۔ مثلاً ایماندار بندوں پر جو تکلیفیں آتی ہیں وہ ان کی شامت اعمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ مومن کو اگر ایک کانٹا بھی چبھے تو وہ بھی کسی خطا کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پھر مصیبتوں اور تکلیفوں کی ایک قسم وہ ہے جو اللہ کے پیغمبروں اور مخلص بندوں کو حق کے راستے میں پیش آتی ہیں۔ ان کے متعلق گناہوں کے کفارہ کا تصور ہی غلط ہے۔ ان کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ ان بزرگ ہستیوں کے درجات بلند کرتا ہے اور ایسے مصائب سب سے زیادہ اللہ کے نبیوں کو پھر درجہ بدرجہ دوسرے مخلص بندوں کو پیش آتے ہیں۔ [٤٦] یعنی اگر اللہ بندوں کے سب برے اعمال کے بدلے ان پر مصائب نازل کرتا تو وہ چند دن بھی جی نہ سکتے تھے۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ وہ اکثر گناہوں پر مؤاخذہ ہی نہیں کرتا ورنہ یہ زمین بھی انسانوں سے بے آباد ہوجاتی۔