سورة الشورى - آیت 23

ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَن يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہی وہ نعمت ہے جس کی اللہ اپنے ان بندوں کو خوشخبری دیتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، آپ کہہ دیجیے کہ میں اللہ کی پیغام رسانی پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ہوں، صرف قرابت کی محبت چاہتا ہوں، اور جو شخص کوئی نیکی کرتا ہے، ہم اس میں اپنی طرف سے ایک نیکی کا اضافہ کردیتے ہیں، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، نیک کاموں کا بڑا قدر دان ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤] الا المودّۃ فی القربیٰ کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کی کئی تفسیریں بیان کی گئی ہیں مگر بہترین تفسیر وہی ہے جو صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے اور وہ یہ ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے پوچھا کہ ﴿ا ِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی ﴾ کا کیا مطلب ہے؟ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے (جھٹ) کہہ دیا کہ اس سے آپ کی آل مراد ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے : تم جلد بازی کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ نہ کچھ قرابت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں کہیے کہ اگر تم اور کچھ نہیں کرتے (مسلمان نہیں ہوتے) تو کم از کم قرابت ہی کا لحاظ رکھو۔ (اور مجھے ایذائیں دینا چھوڑ دو) (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس کی دوسری تفسیر یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں قُرْبٰی سے مراد قرب یا تقرب ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے اس کام پر اس بات کے سوا کوئی اجر نہیں چاہتا کہ تمہارے اندر اللہ کے قرب کی محبت پیدا ہوجائے۔ یعنی تم ٹھیک ہوجاؤ اور اللہ سے محبت کرنے لگو۔ بس یہی میرا اجر ہے۔ تیسرا گروہ اس آیت میں قُرْبٰی سے مراد اقارب لیتا ہے۔ پھر ایک فریق تو اس محبت کو بنی عبدالمطلب سے محبت مراد لیتا ہے۔ اور دوسرا سیدنا فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد سے۔ یہ تفسیر درج ذیل وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔ مودّۃ فی القربیٰ سے شیعہ حضرات کا استدلال اور اس کا جواب :۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داری صرف بنو عبدالمطلب سے ہی نہیں تھی۔ بلکہ تقریباً قریش کے سب قبیلوں سے تھی اور بنی عبدالمطلب میں سے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھے اور کچھ سخت دشمن بھی تھے۔ اور ابو لہب کی آپ سے دشمنی تو سب ہی جانتے ہیں۔ یہی حال قریش کے باقی قبیلوں کا تھا۔ لہٰذا اس تخصیص کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ ٢۔ قُرْبٰی سے مراد سیدہ فاطمہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد لینا اس لحاظ سے غلط ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے۔ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہی مدینہ جانے کے بعد ہوا تھا۔ ٣۔ اور اس تفسیر کے غلط ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا مطالبہ کرنا کہ میں تم سے اس تبلیغ کے کام کا اس کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا کہ تم میرے اقارب سے محبت کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفیع کے مقابلہ میں یہ مطالبہ انتہائی گھٹیا اور فروتر ہے۔ بالخصوص اس صورت میں کہ وہ مطالبہ بھی کافروں سے ہو۔ کافروں سے بھلا اجرت کے مطالبہ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اجرت تو اس سے طلب کی جاسکتی ہے جسے وہ کام پسند آئے اور کافر تو اس تبلیغ کے کام کی وجہ سے آپ کی جان کے لاگوبنے ہوئے تھے۔ ان سے بھلا کوئی ایسا مطالبہ کیا جاسکتا تھا ؟ البتہ یہ واضح رہے کہ آپ کے اہل بیت ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ کی بیٹیوں اور دوسرے تمام اقارب سے محبت رکھنا جن میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد بھی شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم اور حقوق شناسی کے لحاظ سے اہل ایمان کے لیے ضروری ہے اور ان سے درجہ بدرجہ محبت رکھنا حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی کا تقاضا ہے۔ اور ایسی محبت کا تقاضا مسلمانوں سے تو کیا جاسکتا ہے، کافروں سے نہیں جبکہ اس آیت میں روئے سخن کافروں سے ہے۔ [٣٥] یعنی جو نیک بننا چاہتا ہے اللہ اسے اور زیادہ نیک بنا دیتا ہے۔ اس کے کام میں اگر کچھ کو تاہیاں رہ گئی ہوں تو انہیں معاف کردیتا ہے اور جو کچھ بھی وہ نیک اعمال بجا لاتے ہیں ان کی قدر شناسی اور حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انہیں زیادہ اجر فرماتا ہے۔