هَٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ
یہ (قرآن) عام انسانوں کے لیے اعلانِ حق، اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے
[١٢٤] مختلف تہذیبوں اور قوموں کا عروج زوال کیسے ہوتاہے ؟ یعنی ایسے واقعات عام لوگوں کے لیے محض ایک تاریخی بیان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا ڈر نہیں ہوتا وہ یہی کہنے پر اکتفا کرلیتے ہیں کہ مختلف تہذیبیں بنتی اور مٹتی آئی ہیں۔ ایک یونانی تہذیب تھی، ایک رومی تہذیب تھی، ایک ہندی تہذیب تھی، ایک مصری تہذیب تھی، ایک بابلی تھی اور ہر تہذیب کی عمر طبعی تقریباً ایک ہزار سال ہوتی ہے۔ جب عمر پوری ہوجاتی ہے تو وہ تہذیب مٹ جاتی ہے تو اس کی جگہ کوئی نئی تہذیب لے لیتی ہے جس کا دنیا بھر میں بول بالا ہوجاتا ہے۔ اس تاریخی بیان میں ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہر تہذیب کی عمر ہزار سال یا تقریباً ہزار سال نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے بہت کم بھی ہوسکتی ہے اور اس سے بہت زیادہ بھی۔ پھر وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے کہ یہ تہذیبیں بن کیسے جاتی ہیں اور بگڑتی کیونکر ہیں؟ قرآن نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ کوئی قوم اس دنیا میں ایسی نہیں جہاں اللہ کا پیغمبر مبعوث نہ ہوا ہو۔ (٣٥: ٢٤) پھر جب تک کوئی قوم اپنے پیغمبر کی تعلیمات پر عمل پیرا رہتی ہے تو یہ اس کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے اور جب یہی قوم عیش و عشرت اور فحاشی و بے حیائی اور معصیت کے کاموں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ جس کا نام ان کی زبان میں تہذیب ہوتا ہے تو اس پر بتدریج زوال آنا شروع ہوجاتا ہے یا وہ گناہوں میں بہت زیادہ ڈوب جائے تو ناگہانی قسم کا عذاب انہیں تباہ و برباد کردیتا ہے اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ جب بھی کسی قوم کے عروج و زوال پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی نظریہ کے مطابق ڈالتے ہیں اور ایسے واقعات سے عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور ہدایت بھی۔ اس مقام پر یہ مضمون اس مناسبت سے آیا ہے کہ جو مشرکین مکہ اور یہود اور ان کے حلیف اور منافقین جو بھی اللہ کی آیات کو جھٹلا رہے ہیں اور مسلمانوں سے محاذ آرائی کر رکھی ہے ان سب کا یہی انجام ہونے والا ہے۔