وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور جب ان سے کوئی بدکاری (93) ہوجاتی ہے، یا اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور اپنے گناہوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کرسکتا ہے، اور اپنے کیے پر، جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے
[١٢١] توبہ کی اہم شرائط :۔ آیت کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ پرہیزگار لوگ دیدہ دانستہ نہ کوئی برا کام کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں بلکہ سہواً بہ تقاضائے بشریت ان سے ایسے کام سرزد ہوجاتے ہیں اور جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور معافی مانگنے لگتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ یقیناً معاف بھی کردیتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اگر اس برے کام یا غلطی کا اثر صرف اپنی ذات تک محدود ہو تو پھر اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ یقیناً معاف فرما دے گا۔ لیکن اگر اس کا اثر دوسروں کے حقوق پر پڑتا ہو تو اس کی تلافی کرنا یا اس شخص سے قصور معاف کروانا ضروری ہے اور یہ استغفار کی ایک اہم شرط ہے۔ [١٢٢]توبہ کی فضیلت:۔ گناہ پر اصرار کرنا یا استغفار کرنے کے بعد وہی گناہ پھر کرتے جانا اصل گناہ سے بڑا گناہ ہے اور جو لوگ یہ کام کریں وہ یقیناً متقی نہیں ہوتے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ایک گناہ سرزد ہوگیا تو اس کی معافی مانگ لی، پھر دوسرا ہوگیا۔ اس کی بھی اللہ سے معافی مانگ لی، پھر کوئی اور ہوگیا اس کی بھی معافی مانگ لی۔ اس طرح اگر دن میں ستر بار بھی اللہ سے معافی مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے اور اللہ تعالیٰ خطا کار کے معافی مانگنے پر صرف اسے معاف ہی نہیں فرماتا بلکہ اس سے خوش بھی ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ گناہ کے بعد اس کی معافی نہ مانگنا بھی اس پر اصرار کے مترادف ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے اپنے گناہ کی معافی مانگ لی۔ اس نے ضد نہیں کی اور دوسری حدیث میں ہے۔ جس نے توبہ کی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔ (ابن ماجہ، ابو اب الزہد، ذکر التوبة)