وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنكِرُونَ
اور اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، تو تم اللہ کی کن کن آیتوں کا انکار کرو گے
[١٠١] مویشیوں میں انسان کے لئے خوئے غلامی کس نے پیدا کی، مویشیوں سے انسان کو حاصل ہونے والے فوائد :۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طرح طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ جس کا ایک جواب تو سابقہ آیت میں دیا گیا ہے کہ ایسا معجزہ پیش کرنا کسی رسول کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان آیات میں کفار کے اسی مطالبہ کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تو تمہیں اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے اندر باہر ہر طرف ہی مل سکتی ہیں۔ اگر تم سوچو تو تمہارے راہ راست کو قبول کرنے کے لئے رہنمائی ان میں بھی موجود ہے۔ مثلاً جو مویشی تم پالتے ہو ان پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو۔ ان کی ساخت اور ان کی فطرت ہی ہم نے ایسی بنادی ہے کہ وہ فوراً تمہارے تابع بن جاتے ہیں۔ پھر ان سے تم ہزاروں قسم کے فوائد حاصل کرتے ہو۔ ان کے دودھ سے بالائی، مکھن، پنیر، گھی اور لسی بناتے ہو۔ اور یہ چیزیں تمہارے جسم کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ پھر ان پر سواری کرتے ہو۔ تمہارے بوجھل سامان کو یہ اٹھاتے ہیں۔ تمہاری کھیتی میں ہل یہ چلاتے ہیں۔ کنوئیں سے پانی یہ کھینچتے ہیں۔ مشقت کے سب کام تم ان سے لیتے ہو۔ پھر انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ ان کے بالوں سے اپنی پوشاک تیار کرتے ہو۔ اور مرنے کے بعد ان کی ہڈیوں، دانتوں اور کھالوں تک کو اپنے کام میں لاتے ہو۔ ان مویشیوں میں انسان کے لئے یہ خوئے غلامی کس نے پیدا کی؟ تمہاری پیدائش سے بھی بہت پہلے تمہاری ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے والا کون ہے؟ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں کا کیوں محاسبہ نہ کیا جائے :۔ اب دوسری طرف نظر ڈالو۔ زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پانی یا سمندر پھیلے ہوئے ہیں۔ خشکی صرف چوتھا حصہ ہے جس پر تم اور تمہارے مویشی سب رہتے ہیں۔ اتنے سے خشکی کے حصہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ کیوں پیدا کردیا ؟ کیا کبھی تم نے اللہ کی اس نشانی پر غور کیا ؟ پھر پانی اور ہواؤں کو ایسے طبعی قوانین کا پابند بنادیا کہ تم دریاؤں اور سمندروں میں کشتی بانی اور جہاز رانی کے قابل بن گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے طبعی قوانین ہی بدل ڈالے اور وہ ہر چیز کا خالق ہے اور اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے تو کیا تم جہاز رانی کرسکتے تھے؟ یا اس زمین پر زندہ رہ سکتے تھے؟ پھر یہ بھی سوچو کہ جس حکمتوں والے پروردگار نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں تمہارے تصرف میں دے رکھی ہیں کیا وہ انسان کو اتنے اختیارات دے کر اس کو یونہی چھوڑ دے گا اور اس سے اپنی ان نعمتوں کا کبھی حساب نہ لے گا ؟ اور یہ نہ پوچھے گا کہ جس رحیم پروردگار نے تمہاری جملہ ضروریات کا اس قدر خیال رکھا۔ پھر ساتھ کے ساتھ اپنی رحمتیں بھی نازل فرماتا رہا تو کیا انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کی؟ اس کا شکریہ ادا کیا ؟ یا وہ نمک حرام اور ناشکرا ثابت ہوا اور اپنی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسرے کے سامنے نچھاور کرنے لگا ؟