سورة غافر - آیت 69

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّىٰ يُصْرَفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے (٣٩) ہیں، کس طرح وہ لوگ راہ حق سے پھیرے جا رہے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٢] قرآن کی آیات سے اپنے نظریات کشید کرنا اور ان میں جھگڑا اور فرقہ بازی :۔ اللہ کی آیات سے مراد آیات آفاق و انفس بھی ہوسکتی ہے جن کا قرآن نے بے شمار مقامات پر اور یہاں بھی توحید کے دلائل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ پھر بھی مشرک لوگ ان میں جھگڑا کرتے اور اللہ کے پیاروں کو اللہ کے اختیارات میں شریک بنا لیتے ہیں اور اگر ان آیات سے مراداللہ کے احکام وارشادات لئے جائیں تو اس سے مرادوہ لوگ ہیں جو کسی ایک پہلو کی انتہا کو پہنچ کر ایک نظریہ قائم کرلیتے ہیں پھر جو آیات اپنے اس قائم کردہ نظریہ کے خلاف نظر آئیں ان کی تاویل کرلیتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگوں نے جب موت و حیات اور رزق وغیرہ کے معاملہ میں انسان کی بے بسی دیکھی تو یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مجبور محض اور قدرت کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونے کی حیثیت رکھتا ہے پھر جن آیات سے انسان کا اختیار ثابت ہوتا تھا ان کی تاویل کر ڈالی۔ ایسے لوگوں کے مقابلہ میں کچھ دوسرے لوگ اٹھے جنہوں نے قرآن ہی کی آیات سے یہ نظریہ قائم کرلیا کہ انسان مختار مطلق ہے اور جو کام بھی وہ کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ اور ایسی آیات جن سے انسان کی بے بسی ثابت ہوتی تھی ان کی تاویل کر ڈالی۔ اس طرح اللہ کی آیات میں بحث و جدال اور ایک ہی طرف انتہا کو پہنچنے اور دوسرے پہلو سے صرف نظر کرنے کی بنا پر آغاز اسلام میں دو فرقے جبریہ اور قدریہ ایک دوسرے کے مدمقابل کے طور پر سامنے آگئے۔ وہی مسئلہ تقدیر جس پر بحث کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے روک دیا تھا۔ اسی مسئلہ پر بحث و جدال کے نتیجہ میں یہ دو فرقے پیدا ہوئے اور اپنے اپنے نظریہ کی حمایت میں قرآن کی آیات میں بحث و جدال اور انہی سے استدلال کرنے لگے۔۔ حالانکہ اس مسئلہ میں راہ صواب اور راہ اعتدال یہ ہے کہ انسان بعض معاملات میں مجبور ہے اور بعض میں مختار۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت ہے اب اللہ تعالیٰ کا عدل یہ ہے کہ جس کام میں انسان مجبور ہے وہاں اس پر کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔ مؤاخذہ یا باز پرس صرف اس کام کے متعلق ہوگی جس میں وہ مختار ہے۔ یا جس حد تک مختار ہے۔۔ بعد ازاں جتنے بھی بدعی فرقے پیدا ہوئے ہر ایک نے اپنی بنائے استدلال قرآن ہی پر رکھی اور من مانی تاویل حتیٰ کہ اپنی بات کی اپچ میں آکر معنوی اور لفظی تحریف تک سے باز نہ آئے اور ایسی چند تاویلات ہم اپنے حواشی میں پیش کرچکے ہیں۔