فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
پس اے میرے نبی ! آپ صبر کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیے، اور شام کو اور صبح کے وقت اپنے رب کی تعریف اور پاکی بیان کرتے رہیے
[٧١] انبیاء کے گناہوں سے مراد معمو لی قسم کی اجتہادی لغزشیں ہیں :۔ انبیاء سے عمداً کسی گناہ کا سرزد ہو ناممکنات سے ہے۔ ان کے گناہ سے مراد ان کی چھوٹی چھوٹی اجتہادی لغزشیں ہی ہوسکتی ہیں جو بھول چوک کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں اور یہ بشریت کا خاصہ ہے۔ یہاں ان لغزشوں کا تعلق یقیناً صبر سے ہے۔ جیسے آپ کو کبھی کبھی یہ خیال آجاتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کفار مکہ کے مطالبہ کے مطابق کوئی معجزہ عطا فرما دے تو اس سے اسلام کو کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یا جب کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھوتہ کی راہیں ہموار کرنا چاہتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا خیال آنے لگا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے خیال سے بھی سختی سے روک دیا تھا۔ اس بنا پر یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ [٧٢] آیت کے اس ٹکڑا میں اجمالاً پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے۔ ایک پہلے حصہ دن کی اور چار پچھلے حصہ دن کی۔ یہ دراصل ان پانچ نمازوں اور ان کے اوقات کا تمہیدی حکم تھا جو بعد میں فرض کی گئیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر مشکل پڑنے پر صبر اور نماز کا اکٹھا ذکر آیا ہے۔ کیونکہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اس قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہوجاتی ہیں۔