النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
وہ لوگ صبح و شام نار جہنم کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت آجائے گی، اللہ کہے گا فرعونیوں کو سب سے سخت عذاب میں داخل کرو
[٦٠] فرعون اور آل فرعون کا انجام اور عذاب قبر کا ثبوت :۔ ان غرق ہو کر مرنے والوں میں سے صرف فرعون کی لاش کو اللہ نے بچا لیا۔ باقی سب لوگوں کی لاشیں سمندر میں آبی جانوروں کی خوراک بن گئیں یا سمندر کی تہہ میں چلی گئیں۔ فرعون کی لاش کو سمندر کی موجوں نے اللہ کے حکم سے کنارے پر پھینک دیا۔ تاکہ عامۃ الناس اس خدائی کا دعویٰ کرنے والے شہنشاہ کا حشر دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ اور یہ مدتوں ساحل سمندر پر پڑی رہی۔ اور گلی سڑی نہیں بلکہ جوں کی توں قائم رہی۔ کہتے ہیں کہ اس کے مردہ جسم پر سمندر کے نمک کی دبیز تہہ چڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا جسم گلنے سڑنے سے محفوظ رہا۔ اب ان غرق ہونے والوں کی لاشیں خواہ سمندر کی تہہ میں ہوں یا آبی جانوروں کے پیٹ میں یا فرعون کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہو ان سب کی ارواح غرق ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں چلی گئی تھیں۔ غرق ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک ان ارواح کو ہر روز صبح و شام اس دوزخ پر لاکھڑا کیا جاتا ہے جس میں وہ قیامت کے دن اپنے جسموں سمیت داخل ہونے والے ہیں۔ ان کی موت سے لے کر قیامت تک کے عرصہ میں، جسے اصطلاحی زبان میں عالم برزخ کہا جاتا ہے، صرف آگ پر پیشی ہوتی ہے اور صرف ارواح کی ہوتی ہے لیکن قیامت کے دن وہ آگ میں داخل ہوں گے اور جسموں سمیت داخل ہوں گے۔ اس لحاظ سے عالم برزخ کا عذاب قیامت کے عذاب کی نسبت بہت ہلکا اور قیامت کا عذاب عالم برزخ کے مقابلہ میں شدید تر عذاب ہے۔ اس آیت میں عالم برزخ کے عذاب یا عذاب قبر کی ٹھیک ٹھیک صراحت موجود ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے ایک فرقہ نے عذاب قبر سے انکار کردیا ہے اور ان حضرات کا تعاقب میں نے اپنی تصنیف ''آئینہ پرویزیت'' میں پیش کردیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں۔ یہاں سردست صرف بخاری سے چند احادیث درج کر رہا ہوں جن سے واضح طور پر عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے : ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرنے والے واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے بٹھا دیتے ہیں پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تو ان صاحب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا ؟ اس سوال کے جواب میں مومن یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے۔ اللہ نے اس کے بدلہ تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔ پھر اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ لیکن کافر یا منافق سے جب بھی سوال کیا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ تو وہ کہے گا۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کچھ کہہ دیتا تھا ‘‘ پھر اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو تو خود سمجھا اور نہ سمجھانے والے کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اتنی مار پڑتی ہے کہ وہ چلا اٹھتا اور جن اور انسان کے سوا سب اس کے آس پاس والے اس کی چیخ و پکار کو سنتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) ٢۔ سیدنا ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سورج غروب ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر گئے وہاں ایک آواز سنی تو فرمایا : ’’یہ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی بات میں عذاب نہیں ہورہا۔ ان میں سے ایک تو چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک ہری ٹہنی لی۔ اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ پھر فرمایا : ’’امید ہے کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب ہلکا رہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا مانگا کرتے تھے : ’’اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے، دوزخ کے عذاب سے، زندگی اور موت کی بلاؤں سے اور کانے دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر)