فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
پس میں جو کچھ تم سے کہہ رہا ہوں عنقریب ہی اسے یاد کرو گے، اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ اپنے بندوں کے حالات پر پوری نظر رکھتا ہے
[٥٨] مرد مومن کی تقریر کا فرعون پر رد عمل :۔ اس مرد مومن کی تقریر کا یہ آخری حصہ ہے اور اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس نے یہ تقریر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کی تھی۔ اور یہ کہ اب فرعون اسے کسی قیمت پر زندہ نہیں رہنے دے گا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ مرد مومن کسی معمولی عہدے پر فائز نہ تھا بلکہ کسی انتہائی نازک اور ذمہ دارانہ منصب اس کے سپرد تھا۔ جسے فرعون فوری طور پر گرفتار کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ فرعون کو یہ تو معلوم ہوچکا تھا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اس کی انتہائی پابندیوں اور سختیوں کے باوجود ایوان بالا تک سرایت کرچکی ہے۔ لہٰذا اب یہ معاملہ صرف اکیلے اس مرد مومن کا یا موسی علیہ السلام ٰ ہی کے قتل کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ دعوت اسلامی کے اثرات اس کے اپنے دربار اور اس کی اپنی آل میں کہاں تک نفوذ کرچکے ہیں اس لئے سردست اس نے ان دونوں کو التواء میں ڈال دیا کہ مبادا ان دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کو قتل کرنے سے کوئی ایسا ہنگامہ نہ اٹھ کھڑا ہو جس پر بعد میں قابو نہ پایا جاسکے۔ اور تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ اس مرد مومن کے دل میں تھا وہ اس نے پوری جرأت کے ساتھ برملا کہہ ڈالا۔ اور اپنی سچائی کی مزید توثیق کے لئے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ عنقریب تم لوگ میری باتوں کو یاد کرو گے کہ جو کچھ اس آدمی نے باتیں کہی تھیں وہ فی الواقع درست تھیں۔ عنقریب سے مرادروز آخرت بھی ہوسکتا ہے اور وہ دن بھی جبکہ آل فرعون پر عذاب آیا تھا اور وہ بحیرہ قلزم میں غرق کردیئے گئے تھے۔