مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ
یعنی قوم نوح اور قوم عاد اور قوم ثمود اور ان کے بعد آنے والی قوموں کے برے حال کے مانند حال سے ڈرتا ہوں، اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا ہے
[٤٤] فرعون کے جواب سے اس مرد مومن کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ فرعون نے اس کی نصیحت کا خاک بھی اثر قبول نہیں کیا۔ اور اس کے خیالات میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی تو اس نے مزید وضاحت سے سمجھانا شروع کیا اور کہا کہ تم سے پہلے بہت سی ایسی قومیں گزر چکی ہیں جو شان و شوکت میں تم سے بھی بڑھ کر تھیں۔ جیسے قوم نوح، عاد اور ثمود وغیرہ، ان لوگوں نے بھی اپنے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور ان کے درپے آزار ہوگئے تھے جس کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا جس نے انہیں تباہ کرکے رکھ دیا تھا اور مجھے یہ خدشہ ہے کہ ہم پر بھی کہیں ایسا ہی عذاب نازل نہ ہوجائے۔ [٤٥] پیغمبر اللہ کے سفیر ہوتے ہیں :۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر ظلم کرنے یا ان پر عذاب نازل کرنے کا شوق ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ بندوں کے اپنے ہی اعمال ہوتے ہیں جو سزا کا موجب بن جاتے ہیں جیسے دنیا کی کوئی حکومت بھی یہ گوارا نہیں کرتی کہ اس کے سفیر کو رسوا کیا جائے یا اسے قتل ہی کردیا جائے۔ بلکہ فوراً انتقام لینے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ تو بھلا اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب ہے اور انتقام لینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ وہ اپنے رسولوں کو رسوا ہوتا دیکھ کر ان کی مدد نہ کرے گا اور رسوا کرنے والوں سے انتقام نہ لے گا ؟