وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ
اور ہر جان کو اس کے کئے کا پورا بدلہ چکایا جائے گا، اور اللہ ان کے اعمال سے خوب واقف ہے
[٨٩] کیا قاضی اپنے ذاتی علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے ؟:۔ اگرچہ اللہ ان کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ پھر بھی ان پر گواہیاں قائم کی جائیں گی۔ حتیٰ کہ یا تو مجرم خود اپنے گناہ کا اقرار کرلے یا پھر اس کے خلاف گواہیوں کی بنا پر الزام پوری طرح ثابت ہوجائے اور ان کی سزا کے لئے اتمام حجت ہوجائے۔ اس آیت سے نیز اسی آیت کی تائید میں بعض احادیث سے شریعت کا ایک نہایت اہم مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ قاضی محض اپنے علم کی بنا پر کسی مقدمہ کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ کا انحصار گواہیوں پر ہونا ضروری ہے۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اور اسی عدل و انصاف کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ گواہیاں قائم کریں گے۔ بعض علماء نے اس مسئلہ میں اتنی لچک ضرور رکھی ہے کہ اس اصول کا اطلاق حدود و تعزیرات یعنی فوجداری مقدمات پر ہوتا ہے لین دین کے معاملات یا دیوانی مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے لیکن بعض آثار سے اس گنجائش کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مالی مقدمات میں بھی قاضی اپنے علم کو فیصلہ تو دور کی بات ہے، ایک شہادت کے طور پر بھی استعمال میں نہ لائے۔