هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
تم خود دیکھ لو کہ تم تو ان سے محبت (84) رکھتے ہو اور وہ تمہیں بالکل نہیں چاہتے، اور تم تو تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور (ان کا حال یہ ہے کہ) وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو تم سے مارے غصہ کے اپنی انگلیاں اپنے دانتوں سے کاٹتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے غصہ میں مرتے رہو، اللہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے
[١٠٧]کفار سے دوستی کی ممانعت :۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ تم تو تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو جن میں تورات بھی شامل ہے۔ لیکن اہل کتاب تمہارے قرآن پر ایمان نہیں رکھتے، اس بات کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ تم سے محبت رکھتے اور تم ان سے دشمنی رکھتے، مگر یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ تم یہ کیسی الٹی گنگا بہا رہے ہو؟ [١٠٨] یہاں آمنا سے مراد یا تو یہود کا تورات پر ایمان لانا ہے یا مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے منافقانہ طور پر یہ کہہ دینا کہ ہم بھی قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔ حالانکہ جب وہ تمہارا اتحاد و اتفاق اور آپس میں پیار و محبت یا پے در پے کامیابیاں اور کامرانیاں دیکھتے ہیں تو غصہ کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں میں چبانے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان کو روکنے میں ان کا کچھ بس نہیں چلتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم خواہ غصہ سے جل بھن جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے مشن کو کامیاب کرکے رہے گا اور دین اسلام ایک غالب دین کی حیثیت سے بلند ہو کے رہے گا اور تمہارے دلوں میں بغض و عناد کی جو لہریں اٹھتی ہیں۔ اللہ ان سے بھی پوری طرح واقف ہے۔