وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
اور جب انسان کو کوئی تکلیف (٧) پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اس کی طرفٍ دل سے رجوع ہو کر پکارنے لگتا ہے، پھر جب وہ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے، تو وہ اس کو تکلیف کو بھول جاتا ہے جسے دور کرنے کے لئے وہ پہلے اللہ کو پکارتا تھا، اور اللہ کے لئے شریک بناتا ہے، تاکہ لوگوں کو اس کی راہ سے گمراہ کرے۔ اے میرے نبی ! آپ (ایسے آدمی سے) کہہ دیجیے کہ تم اپنی نا شکری سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لو، بلا شبہ تم جہنمیوں میں سے ہو
[١٧] جمعرات کو مزاروں پر حاضری دینے والے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک دنیادار اور جاہل قسم کے انسان کی فطرت بیان فرمائی ہے جو مزاروں پر جمعرات کو حاضری دینے میں اپنی سب سعادت سمجھتا ہے۔ اس سے زیادہ اسے نہ دین کے سمجھنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ وہ اس کے لئے کوئی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ یہ دنیا بس اللہ کے ان پیاروں کے سہارے ہی قائم ہے۔ جو ان مقبروں اور مزاروں میں موجود زندہ ہیں اور لوگوں کی داد رسی کر رہے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہی عقیدے مشرکین مکہ کے اپنے بتوں سے وابستہ تھے۔ ایسے لوگوں کو جب کوئی ایسی مصیبت بن جاتی ہے کہ موت سامنے کھڑی نظر آنے لگتی ہے تو صرف اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ کے پیاروں کو بھول جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سارے مشرکوں کا کبھی اس بات پر اتفاق نہیں ہوسکا کہ فی الواقع اللہ کے بعد وہ کون سی ہستی ہے۔ جو دافع البلاء ہوسکتی ہے۔ کسی کے نزدیک ایک بزرگ ہوتا ہے تو کسی کے نزدیک کوئی دوسرا بزرگ۔ البتہ اللہ کی ذات پر سب متفق ہوجاتے ہیں اور اسے پکارنے لگتے ہیں۔ پھر جب اللہ اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے اور انہیں سکھ چین نصیب ہوجاتا ہے تو پھر اللہ کو بھول جاتے ہیں اور اب ان کی ساری نیاز مندیاں بس اللہ کے پیاروں کے لئے رہ جاتی ہیں۔ [١٨] پھر وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے یوں کہنے لگتا ہے کہ ہمیں تو فلاں آستانے سے شفا نصیب ہوئی تھی۔ اور فلاں بزرگ کی نظر کرم کی وجہ سے ہم اس مصیبت سے بچ نکلے تھے اور فلاں بزرگ کی بارگاہ سے ہماری فلاں حاجت پوری ہوئی تھی اور ہمارے دن پھرے تھے اسی طرح دوسرے بہت سے لوگ بھی ان حضرتوں کے معتقد بن جاتے ہیں اور ہر جاہل اپنے اسی طرح کے تجربے بیان کر کرکے عوام میں گمراہی پھیلاتا جاتا ہے۔