أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
آگاہ رہیے کہ خالص بندگی (٢) صرف اللہ کے لئے ہے، اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا کو دوست بنایا ( وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں، بے شک وہ لوگ جس حق بات میں آج جھگڑتے ہیں اس بارے میں اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا، بے شک اللہ جھوٹے اور حق کے منکر کو راہ کی ہدایت نہیں دیتا
[٣] دین کا لفظ چار معنوں میں آتا ہے۔ (١) اللہ تعالیٰ کی مکمل سیاسی اور قانونی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے۔ (٢) دوسرا معنی اس کے بالکل برعکس ہے یعنی اپنے آپ کو ہمہ وقتی اللہ کا غلام سمجھا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے، (٣) قانون جزا و سزا (٤) اور اس قانون جزا و سزا کے مطابق اچھے اور برے لوگوں کو بدلہ دینا۔ آیت نمبر ٢ اور ٣ میں دین کا لفظ اپنے پہلے دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ [٤] توسل اور اللہ کا قرب ڈھونڈنا :۔ غیر اللہ کو پکارنے اور ان کے حضور نذر و نیاز پیش کرنے کے سلسلہ میں مشرکوں کی دلیل ہمیشہ یہ ہوا کرتی ہے کہ ہم یہ کام اس لئے کرتے ہیں کہ یہ چھوٹے خدا ہماری معروضات بڑے خدا تک پہنچا دیں۔ ہماری اللہ کے حضور سفارش کریں۔ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ہم نے انہیں صرف اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا وسیلہ یا ذریعہ بنایا ہے۔ یہ جواب تو دور نبوی کے مشرکوں کا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کا بھی بالکل یہی حال ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو مقام مشرکوں کے نزدیک اپنے بتوں کا تھا وہی مقام مسلمانوں کے نزدیک ان کے پیروں یا مشائخ کا ہے اور دوسرا فرق یہ ہے کہ مشرکوں کو تو بتوں کی نیاز مندی کے آداب و اطوار شیطان نے سجھائے تھے۔ مگر مسلمانوں کے مشائخ خود اپنے مریدوں کو یہ آداب و اطوار بتاتے ہیں۔ ان پیروں اور بزرگوں نے شرک کی منزلیں طے کرانے کے لئے تین درجے مقرر کر رکھے ہیں۔ (١) فنا فی الشیخ، (٢) فنا فی الرسول اور (٣) فنا فی اللہ۔ تصور شیخ اور سلوک کی منزلیں :۔ فنا فی الشیخ کے درجہ کی ابتدا تصور شیخ سے کرائی جاتی ہے۔ تصور شیخ سے مراد صرف پیر کی ’’غیر مشروط اطاعت‘‘ ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ اس کا پیر ہر وقت اس کے حالات سے باخبر رہتا ہے۔ اور بوقت ضرورت ان کی مدد کو پہنچتا ہے۔ اس عقیدہ کو مرید کے ذہن میں راسخ کرنے کے لئے اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پیر کی شکل کو اپنے ذہن میں رکھے۔ یہی واہمہ اور مشق بسا اوقات ایک حقیقت بن کر سامنے آنے لگتا ہے اور صورت یہ بن جاتی ہے کہ : دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار۔۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی ان حضرات نے پیری کے فن کو خاص تکنیک دے کر عوام پر اس طرح مسلط کردیا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک اللہ کے ہاں رسائی نہیں پاسکتا۔ جب تک باقاعدہ کسی سلسلہ طریقت میں داخل نہ ہو۔ پہلے تصور شیخ کی مشق کرے۔ حتیٰ کہ فنا فی الشیخ ہوجائے۔ یعنی اسے اپنی ذات کے لئے حاضر ناظر، افعال و کردار اور گفتار کو سننے والا اور دیکھنے والا سمجھنے لگے تب جاکر یہ منزل ختم ہوتی ہے اور عملاً ہوتا یہ ہے کہ مرید بیچارے تمام عمر فنا فی الشیخ کی منزل میں ہی غوطے کھاتے کھاتے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ گویا اللہ اور اس کے رسول سے بیگانہ کرکے اپنا غلام بنانے کا کارگر اور کامیاب حربہ ہے۔ یہ حضرات کس طرح اللہ سے بھی زیادہ اپنی پرستش کی تاکید کرتے ہیں یہ بات درج ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائیے جو تصور شیخ، غیر اللہ کو پکارنا، توسل اور استمداد جیسے سب مسائل حل کردیتا ہے۔ اللہ کی بجائے مصیبت میں یا جنید پکارنے کی تلقین :۔ اس کے راوی جناب اعلیٰ حضرت رضا خان بریلوی ہیں۔ فرماتے ہیں ’’غالباً حدیقہ ندیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدی جنید بغدادی دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پرزمین کی طرح چلنا شروع کردیا۔ بعد میں ایک شخص آیا۔ اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی۔ جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا ؟ عرض کیا : میں کس طرح آؤں؟ فرمایا یا جنید! یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا جب بیچ دریا میں پہنچا۔ شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود یا اللہ کہیں اور مجھ سے یاجنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی کیوں نہ یا اللہ کہوں؟ اللہ کے قرب کی بجائے دور رکھنے کا طریقہ :۔ اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا۔ پکارا یا حضرت میں چلا۔ فرمایا : وہی کہہ یا جنید! یا جنید! جب کہا دریا سے پار ہوا۔ عرض کیا حضرت! یہ کیا بات تھی۔ آپ یا اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطہ کھاؤں؟ فرمایا : اے نادان! ابھی تو جنید تک تو پہنچا نہیں، اللہ تک رسائی کی ہوس ہے۔ اللہ اکبر‘‘ (ملفوظات مجدد مائۃ حاضر حضرت احمد رضا خان بریلوی ص ١١٧) پیر کس طرح اپنی پرستش کرواتے ہیں :۔ دیکھا آپ نے پیر کو وسیلہ پکڑنے کی کتنی زبردست دلیل ہے جو امام اہل سنت، موجودہ صدی کے مجدد صاحب ''غالباً حدیقہ ندیہ'' کے حوالہ سے پیش فرما رہے ہیں۔ اور واقعہ بھی ایسا لاجواب گھڑا ہے کہ اس بیچارے کو تسلیم کرنا پڑا کہ میرا اللہ کو پکارنا واقعی شیطانی وسوسہ تھا۔ یہ ہیں تصور شیخ جیسی بدعت کے کرشمے۔ یہ لوگ ایسے افسانے تراش تراش کر لوگوں کو شرک میں مبتلا کرتے اور اللہ سے دور رکھتے اور فی الحقیقت اپنی پرستش کراتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے خود جو اپنے قرب کا وسیلہ بتایا وہ درج ذیل قدسی حدیث سے واضح ہوتا ہے : قرب الہٰی کا حقیقی وسیلہ اس کے نیک اعمال ہیں :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ’’اے آدم کے بیٹے میں بیمار ہوا تو نے میری بیمار پرس نہ کی، وہ کہے گا : اے میرے پروردگا! میں کیسے تیری عبادت کرتا جبکہ تو تو رب العالمین ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، تو نے اس کی عیادت نہ کی۔ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پالیتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے کھانا نہ دیا۔ وہ کہے گا : اے میرے پروردگار! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا۔ تو تو رب العالمین ہے؟ پروردگار فرمائے گا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تو نے اسے کھانا نہ کھلایا۔ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا اجر میرے ہاں پالیتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ کہے گا کہ میں تجھے کیونکر پانی پلاتا، تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا اجر میرے ہاں پالتا‘‘ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ والادب۔ باب فضل عیادۃ المریض) [٥] پھر صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے عقائد پر جمے ہوئے ہیں بلکہ اگر انہیں سمجھایا جائے تو مخالفت پر اتر آتے ہیں اور اسے ولیوں کے منکر یا گستاخ کا طعنہ دیتے ہیں۔ ایسے اختلافات دنیا میں مٹ نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ معاملہ غور و فکر اور افہام کا نہیں بلکہ ضد اور چڑ کا بن جاتا ہے پھر کچھ دنیوی مفادات کا بھی دھندا چلتا ہے۔ لہٰذا ان اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ ہی کرے گا۔ اور وہاں ہر ایک کو ٹھیک سمجھ آجائے گی۔ [٦] یہ مشرک جھوٹے تو اس لحاظ سے ہیں کہ ان کے سب عقیدے من گھڑت ہوتے ہیں۔ اور حق کے منکر اس لحاظ سے کہ بات سمجھنے کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں۔ اور اگر کفار کا معنی ناشکرگزار کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کھاتے تو اللہ کا دیا ہوا رزق ہیں اور ان کی ہر طرح کی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسروں کے لئے وقف ہوتی ہیں۔