قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ
اللہ نے کہا، اے ابلیس ! میں نے جسے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے، اسے سجدہ کرنے سے تمہیں کس بات نے روک دیا ہے، کیا تم نے تکبر کیا ہے، یا تم حقیقت میں بلند مرتبہ والوں میں سے ہو
[٧٠] اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں : اللہ تعالیٰ نے بڑی صراحت سے فرمایا کہ آدم کے پتلے کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ اس سے کائنات کی تمام اشیاء پر آدم علیہ السلام اور بنی آدم کا شرف اور فضیلت ثابت ہوئی۔ دوسرے اس سے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا رد ہوا۔ تیسرے ان لوگوں کا جو اللہ کے ہاتھ، آنکھیں اور پاؤں وغیرہ ہونے کے یکسر منکر ہیں۔ ان کی بنائے استدلال یہ ہے کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں کیسے ہوسکتے ہیں لامحالہ ایسی آیات اور ایسے الفاظ کی تاویل کرنا ضروری ہے۔ جس کا جواب یہ ہے کہ اللہ اپنی صفات علم اور قدرت وغیرہ کے لحاظ سے ہر جگہ موجود ہے لیکن اس کی ذات عرش پر ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ خود اپنے ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں کا صراحت سے ذکر کرتا ہے تو دوسرا کون اس سے بڑھ کر اس کی تنزیہہ کرسکتا ہے۔ خواہ اس نے اپنے ہاتھ، پاؤں وغیرہ کا ذکر ہمارے سمجھانے کے لئے کیا ہو تاہم کیا تو ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کے ہاتھ، آنکھیں اور پاؤں کیسے ہیں۔ تو یہ بات ہم سمجھنے کے نہ مکلف ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں ہماری عافیت بس اس میں ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ فرمائے اسے جوں کا توں تسلیم کرلیں۔ [٧١] کیا تو اب بڑا بننا چاہتا ہے یا پہلے سے ہی یہ سمجھتا ہے کہ میں دوسروں سے کوئی برتر مخلوق ہوں۔