سورة ص - آیت 34

وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَانَ وَأَلْقَيْنَا عَلَىٰ كُرْسِيِّهِ جَسَدًا ثُمَّ أَنَابَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے سلیمان کو آزمائش (١٨) میں ڈالا، اور ان کے تخت شاہی پر ایک جسم ڈال دیا، پھر انہوں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١] اس آیت کے تحت بعض مفسرین نے درج ذیل حدیث درج کی ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ میں آج رات اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ان سے ہر ایک، ایک سوار جنے گی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا آپ کے کسی ساتھی نے کہا ان شاء اللہ کہو! مگر انہوں نے یہ بات نہ کہی تو ان میں سے کوئی بھی حاملہ نہ ہوئی ماسوائے ایک کے اور وہ بھی ادھورا بچہ جنی۔ اس پروردگار کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو سب کے ہاں بچے پیدا ہوتے اور سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے۔(بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی) لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا اس آیت کی تفسیر سے کچھ تعلق نہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ یہ حدیث بخاری کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں موجود ہے لیکن کسی محدث نے اپنی کتاب التفسیر میں اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر میں درج نہیں کیا۔ ٢۔ امام بخاری نے اس حدیث کو چار مختلف مقامات پر درج کیا ہے جو یہ ہیں (کتاب بدء الخلق۔ کتاب الانبیاء، کتاب الاَیمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور باب الکفارۃ قبل الحنث اور کتاب التوحید، باب فی المشیئۃ والارادۃ) مگر کتاب التفسیر میں درج نہیں کیا۔ ٣۔ اگرچہ اس حدیث میں لفظی اختلاف موجود ہے۔ مگر کسی متن میں بھی یہ الفاظ موجود نہیں ہیں کہ یہ ادھورا بچہ دایہ نے یا لوگوں نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے تخت یا کرسی پر ڈال دیا تھا۔ یہ مفسرین کا اپنی طرف سے اضافہ ہے۔ حالانکہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کا تعلق اسی بات سے ہے۔ سیدنا سلیمان کو اللہ نے کس آزمائش میں ڈالا تھا :۔ اس کے علاوہ بھی بعض مفسرین نے کچھ باتیں نقل کی ہیں لیکن وہ بالکل ہی بے سروپا، غیر معقول اور لایعنی ہیں قرآن سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کا تعلق ایک بے جان دھڑ سے تھا جو آپ کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا۔ اس پر آپ کو معلوم ہوا کہ آپ تو آزمائش میں پڑچکے ہیں پھر اسی وقت اللہ کی طرف رجوع ہوئے اپنے قصور کی معافی مانگی اور ساتھ ہی یہ دعا کی مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما جو میرے بعد کسی کے شایان نہ ہو۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کا یہ قصور بھی معاف کردیا گیا اور دعا بھی قبول ہوگئی کہ ہواؤں اور جنوں کو آپ کے لئے مسخر کردیا گیا جیسا کہ آگے مذکور ہے اور درج ذیل حدیث اسی کی وضاحت کرتی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھڑنے والا جن :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک دیو ہیکل جن مجھ سے بھڑ پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ یا کوئی ایسا ہی کلمہ کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غالب کردیا۔ میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح تم اسے دیکھ سکو پھر مجھ کو اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی کہ : اے میرے پروردگار! مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے شایان نہ ہو۔ روح راوی نے کہا کہ آپ نے اس جن کو ذلت کے بعد بھگا دیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) نیز کتاب الصلوۃ باب الاسیر اوالغریم یربطہ فی المسجد) اور یہ ایسی فضیلت ہے کہ جو آپ کے بعد (یا پہلے) نہ کسی نبی کو حاصل ہوئی اور نہ بادشاہ کو۔ رہی یہ بات کہ اصل آزمائش تھی کیا ؟ اور بے جان دھڑ سے کون سے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کی کوئی معقول توجیہ نہ مجھے کہیں سے ملی ہے اور نہ ہی میرے ذہن میں آسکی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔