فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّي حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ
تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی یاد سے غافل ہو کر ان گھوڑوں میں دلچسپی لینے لگا، یہاں تک کہ آفتاب پر دے میں چھپ گیا
[٤٠] سیدنا سلیمان کے ہاں پیش کئے جانے والے گھوڑے :۔ تو ارت میں واحد مونث کی ضمیر کس طرف راجع ہے؟ اس میں اختلاف کی وجہ سے اس آیت کی تفسیر میں بھی خاصا اختلاف واقع ہوا ہے۔ ﴿تَوَارَتْ بالْحِجَابِ﴾ سے بعض مفسرین نے یہ مراد لی ہے کہ جب گھوڑوں کا رسالہ نظروں سے چھپ گیا۔ اور بعض نے یہ مراد لی ہے کہ جب سورج غروب ہوگیا۔ پہلے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ کی جاتی ہے کہ ایک دن پچھلے پہر سیدنا سلیمان علیہ السلام اپنے گھوڑوں کا معائنہ کر رہے تھے پھر ان کی دوڑ کرائی تاآنکہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے چونکہ یہ سارا سلسلہ جہاد کی خاطر تھا اس لئے آپ اس شغل سے بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے اپنے پروردگار کی یا دکی وجہ سے ہی یہ شغل پسند کیا ہے۔ پھر گھوڑے اپنے پاس طلب کئے اور شفقت سے ان کی گردنوں اور ان کی پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے تفسیر یہ ہے کہ آپ علیہ السلام گھوڑوں کے شغل میں اتنے محو ہوئے کہ سورج ڈوب گیا اور اس شغل نے آپ کو اللہ کی یاد یعنی نماز سے غافل کردیا۔ اس واقعہ سے آپ علیہ السلام کو بہت دکھ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے گھوڑوں کو طلب کیا اور ان کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹنا شروع کردیں اور چند گھوڑے کاٹ کر ان کا گوشت محتاجوں میں تقسیم کردیا۔ چونکہ آپ علیہ السلام نے یہ کام اللہ کی محبت کی خاطر کیا تھا اس لئے اللہ نے آپ علیہ السلام کو یہ صلہ دیا کہ ہواؤں کو آپ کے تابع کردیا اور آپ علیہ السلام کو گھوڑوں کے رسالے کی اتنی احتیاج ہی نہ رہی جتنی پہلے تھی۔