أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي ۖ بَل لَّمَّا يَذُوقُوا عَذَابِ
کیا ہمارے درمیان سے اسی پر قرآن اتار دیا گیا ہے، بلکہ وہ لوگ میرے قرآن کی صداقت میں شبہ کرتے ہیں، بلکہ انہوں نے اب تک میرا عذاب نہیں چکھا ہے
[٨] قریش کا قول کہ کیا نبوت کے لئے یہی شخص رہ گیا تھا ؟: دنیا دار لوگوں کے نزدیک کسی شخص کی عظمت کو ماپنے کا پیمانہ مال و دولت ہوتا ہے یا جاہ و منصب۔ اسی خیال سے کفار مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر اللہ نے ہم میں سے کسی بشر کو ہی رسول بنانا تھا تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہی شخص رسالت کے لئے ملا تھا کیا سرداران قریش مرگئے تھے؟ اگر بنانا ہی تھا تو مکہ اور طائف کے لوگوں میں سے کسی رئیس کو اپنا رسول بناتا۔ بالفاظ دیگر ان کا اصل اعتراض یہ تھا کہ اللہ میاں نے رسالت کا منصب سونپتے وقت ہم سے مشورہ کیوں نہیں لیا ؟۔ [٩] بات یوں نہیں بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ سرے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ہی کے منکر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرا کلام بھی ان کے نزدیک مشکوک ہوگیا ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رسالت سے پیشتر کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی را ستبازی کے قائل تھے۔ اب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے دعویٰ میں ان کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راستبازی پر بھی شک کیا جانے لگا ہے اور اس ہستی کو کذاب کہنے لگے ہیں جسے وہ ہمیشہ سے را ستباز سمجھتے آئے ہیں تو اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں میرے ذکر، میرے کلام اور میرے پیغام میں شک ہے۔ [١٠] ان کے ایسے بیہودہ اعتراض کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک انہوں نے میری مار کا مزا نہیں چکھا۔ ایک دفعہ انہیں میری مار پڑگئی تو ان کے سب کس بل نکل جائیں گے اور آئندہ ایسی باتیں بنانے کا انہیں ہوش ہی نہ رہے گا۔