وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو فرقوں (75) میں بٹ گئے، اور ان کے پاس نشانیاں آجانے کے بعد آپس میں اختلاف کیا، اور انہی کے لیے بڑا عذاب ہے
[٩٦]ہر گمراہ فرقہ کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ ہوتاہے اور ناجی فرقہ :۔ اس آیت میں ’’ان لوگوں‘‘ سے مراد اہل کتاب ہیں یعنی یہود و نصاریٰ بے شمار فرقوں میں بٹ گئے۔ اور ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ یہود اکہتر (٧١) فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتر (٧٢) فرقوں میں اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں بٹ جائے گی۔ جن میں سے ایک فرقہ کے سوا سب دوزخی ہوں گے۔ صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا تو آپ نے فرمایا : ''ما انا علیہ واصحابی'' یعنی وہ فرقہ اسی راہ پر چلے گا۔ جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ (ترمذی۔ کتاب الإیمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر گمراہ فرقہ کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ یا عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر فرقہ کے مسلمانوں کو اس بات کی ضرور تحقیق کرلینا چاہئے کہ اس کا کوئی عقیدہ یا عمل ایسا تو نہیں جس کا وجود دور نبوی یا دور صحابہ میں ملتا ہی نہ ہو؟ اور اگر فی الواقعہ نہ ملتا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ گمراہ فرقوں کے قائدین یا موجد عموماً عالم دین اور ذہین و فطین قسم کے لوگ ہی ہوا کرتے ہیں جو استنباط و تاویل پر دسترس رکھتے ہیں۔ یہ لوگ عموماً متشابہات سے استنباط کرکے اور محکمات کی غلط تاویل کے ذریعہ اپنے بدعی عقیدہ کو کتاب و سنت سے ہی مستنبط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد فقط ایک فرقہ کی قیادت اور بعض دوسرے مالی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اسی بات پر ہی اکتفا نہ کرے کہ اس کے فرقہ کا قائد ایک بہت بڑا عالم ہے۔ وہ بھلا کیسے غلط ہوسکتا ہے یا دوسروں کو غلط راہ پر ڈال سکتا ہے بلکہ ہر شخص کو اپنے طور پر تحقیق کرنا ضروری ہے۔