سورة الصافات - آیت 125

أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا تم بعل (بت) کو پکارتے ہو اور سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو چھوڑ بیٹھے ہو

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٢] سیدنا الیاس کا مرکز تبلیغ اور بعل کی پرستش :۔ سیدنا الیاس علیہ السلام ، سیدنا ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ ان کا زمانہ نبوت نویں صدی قبل مسیح ہے۔ ان کا مرکز تبلیغ بعلبک نامی شہر تھا جو شام میں واقع تھا۔ آپ کی قوم بعل نامی بت کی پرستار تھی اور یہی بعل ہی ان کا دیوتا تھا۔ بعل کا لغوی معنی مالک، آقا، سردار اور خاوند ہے اور قرآن میں بعل کا لفظ متعدد مقامات پر خاوند کے معنوں میں استعمال ہوا ہے مگر قدیم زمانے میں سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنوں میں استعمال کرتی تھیں۔ ان لوگوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل (یعنی دوسرے دیوتاؤں یا معبودوں کا سردار) کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ بابل سے لے کر مصر تک پورے شرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی بنی اسرائیل جب فرعون سے نجات پاکر مصر سے فلسطین آکر آباد ہوئے اور ان لوگوں سے شادی بیاہ ہوئے تو یہ مرض ان میں بھی پھیل گیا۔ بعل کے نام کا ایک مذبح بھی بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ عوام تو درکنار فلسطین کی اسرائیل ریاست بھی بعل پرستی میں مبتلا ہوگئی تھی۔ [٧٣] یعنی اللہ کے علاوہ خالق اور بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً انسان میدہ، گھی اور چینی کی آمیزش اور ترکیب سے کئی قسم کی مٹھائیاں وجود میں لاتا ہے اور مادے کے خواص معلوم کرکے نت نئی قسم کی ایجادات کو وجود میں لاتا ہے۔ اسی طرح ایک مصنف چند کتابیں یا تحریریں سامنے رکھ کر ایک نئی کتاب کو وجود میں لاتا ہے۔ یہ سب تخلیقی کارنامے ہیں۔ مگر یہ سب کارنامے ایسے ہیں جن کا مواد پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق نہ مادہ کی محتاج ہے نہ اس کے اوصاف کی کیونکہ مادہ میں وصف پیدا کرنے والا وہ خود ہے پھر اس کے تخلیقی کارنامے اس لحاظ سے انسان کی بساط سے باہر ہیں کہ وہ روح پھونک کر جیتی جاگتی اور نشوونما پانے والی اشیاء تیار کرتا ہے۔ پھر اس کے تخلیقی کارنامے ایسے ہیں جنہیں انسان کا بنانا تو درکنار انسان سمجھ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً انسان کی اندرونی ساخت اور اس کے اعضاء و جوارح کے وظائف اور وہ قوتیں جو انسان میں رکھ دی گئی ہیں ایک آنکھ کے نور ہی کو لیجئے کہ وہ کیا چیز ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے اور اگر ضائع ہوجائے تو کیا کوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر اسے بحال کرسکتا ہے؟ اب سب باتوں کا جواب نفی میں ہے۔ لہٰذا احسن الخالقین صرف اللہ کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔