سورة الصافات - آیت 28

قَالُوا إِنَّكُمْ كُنتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کہیں گے، تم ہمیں بھلائی اور خیر خواہی کے نام سے بہکاتے تھے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦] لفظ یمین کے مختلف معنی اور ان سب کا اطلاق :۔ یمین کا لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً (١) یمین بمعنی دایاں ہاتھ بھی اور دائیں طرف بھی اور (٢) اصحاب الیمین کے معنی دائیں ہاتھ یا دائیں جانب والے بھی اور اصحاب خیرو برکت بھی (مفردات القرآن) (٣) پھر جس طرح ید کا لفظ قوت اور قبضہ کے معنوں میں آتا ہے یمین اس سے بھی زیادہ وسیع معنوں میں آتا ہے۔ کیونکہ قوت اور کارکردگی کے لحاظ سے دایاں ہاتھ بائیں سے افضل اور بہتر ہے۔ اور ملک یمین اس چیز کو کہتے ہیں جس پر پورا قبضہ اور اختیار ہو اور محاورۃ یہ لفظ لونڈی اور غلام کے معنوں میں آتا ہے۔ (٤) علاوہ ازیں اہل عرب کی عادت تھی کہ اپنے عہد و پیمان اور قسم کو مضبوط تر بنانے کے لئے اپنا ہاتھ مخاطب کے ہاتھ میں دیتے تھے یا مارتے تھے۔ لہٰذا یہ لفظ قسم کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگا یعنی ایسی قسم جو عہد و پیمان کو پختہ کرنے کے لیے اٹھائی جائے۔ اس آیت میں یمین کا لفظ تقریباً اپنے سب معانی کے لحاظ سے درست ہے۔ مثلاً کمزور یا پیروی کرنے والے لوگ اپنے بڑے بزرگوں سے کہیں گے کہ (١) تم لوگوں نے ہم پر کچھ ایسا دباؤ ڈال رکھا تھا کہ ہم تمہاری باتیں ماننے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یا (٢) تم لوگوں نے یہ پروپیگنڈا کر رکھا تھا کہ جو راہ ہم نے اختیار کر رکھی ہے وہی خیر و برکت کا راستہ ہے لہٰذا ہم تمہارے بھرّے میں آگئے یا (٣) تم لوگوں نے قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلایا تھا کہ ہم فی الواقع تمہارے خیر خواہ ہیں۔ اس طرح تم نے ہمیں بھٹکا کر اپنے ساتھ لگا لیا تھا اور ہم تمہاری اطاعت کرنے لگے تھے۔ اور ان سب مطالب کا خلاصہ یہی ہے کہ ہمیں اس انجام بد سے دو چار کرنے والے اور گمراہ کرنے والے تم ہی لوگ ہو۔