سورة الصافات - آیت 8

لَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ شیاطین عالم بالا کی باتیں نہیں سن سکتے ہیں، اور ہر جانب سے انہیں (آگ کے انگاروں سے) مارا جاتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥] دور نبوی میں کہانت کا چرچا :۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا اور کاہنوں کو معاشرہ میں ایک معزز مقام حاصل تھا۔ ان کے متعلق مشہور یہ تھا کہ جن اور شیطان کاہنوں کے قبضہ میں ہوتے ہیں جو انہیں غیب کی خبریں مہیا کرتے ہیں۔ اچھے بھلے لوگ ان کے ہاں آتے اور ان کی خدمات حاصل کرتے تھے حتیٰ کہ بعض دفعہ اپنے مقدمات کے فیصلے کے لئے ان کے ہاں آتے تھے۔ ایسے ہی ایک کاہن کا واقعہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ قرآن جب نازل ہوا تو اس میں کچھ سابقہ انبیاء و اقوام کے حالات تھے اور کچھ آئندہ کی خبریں بھی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آتا ہے جو آپ پر یہ کلام نازل کرتا ہے۔ ان ساری باتوں سے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید وہ دوسرے کاہنوں کی طرح آپ کے پاس بھی کوئی جن یا شیطان آتا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ بیمار ہوئے تو دو تین راتیں تہجد کی نماز کے لیے اٹھ نہ سکے تو ابو لہب کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی۔ میں سمجھتی ہوں کہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ والضحیٰ) اور اسی وجہ سے وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن ہی سمجھتے تھے۔ اگلی دو آیات میں ان کے اسی غلط نظریہ کی تردید کی گئی ہے۔