وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
اور ہم نے اپنے نبی کو شعر (٣٤) نہیں سکھایا ہے، اور نہ شاعری ان کے لئے مناسب ہے، یہ (کتاب) صرف نصیحت ہے، اور روشن قرآن ہے
[ ٦١] آپ کے لئے شاعری اس لئے مناسب نہیں کہ شاعروں کے کلام میں جب تک جھوٹ اور مبالغہ کی آمیزش نہ ہو اس کے کلام میں نہ حسن پیدا ہوتا ہے اور نہ دلکشی اور نہ ہی کوئی ان کے اشعار کو پسند کرتا ہے۔ مزید برآں ان کے تخیلات خواہ کتنے ہی بلند ہوں ان کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی عملی زندگی عموماً ان کے اقوال کے برعکس ہوتی ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کے انداز فکر کے لئے کوئی متعین راہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر میدان میں ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ شعر میں اگر کوئی چیز پسندیدہ ہوسکتی ہے تو وہ اس کی تاثیر اور دل نشینی ہے اور یہ چیز قرآن میں نثر ہونے کے باوجود بدرجہ اتم پائی جاتی ہے گویا شعر میں جو چیز کام کی تھی یا اس کی روح تھی وہ پوری طرح قرآن میں موجود ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ عرب جنہیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز تھا۔ اور اسی وجہ سے وہ غیر عرب کو عجمی کہتے تھے۔ قرآن کو شعر یا سحر کہنے لگتے تھے اور حامل قرآن کو شاعر اور ساحر۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ شعر اور سحر کو قرآن سے کوئی نسبت نہیں کیا کبھی شاعری یا جادو کی بنیاد پر دنیا میں قومیت و روحانیت کی ایسی عظیم الشان اور لازوال عمارت کھڑی ہوسکتی ہے جو قرآنی تعلیم کی اساس پر قائم ہوئی اور آج تک قائم ہے۔ آپ کا وزن توڑ کر شعر پڑھنا :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تعالیٰ نے طبیعت ہی ایسی بنائی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعر کو موزوں نہیں کرسکتے تھے اور اگر کبھی کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر پڑھتے تو اس کا وزن توڑ دیتے تھے۔ چنانچہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ ہوازن کے اموال غنیمت میں سے ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصین اور اقرع بن حابس کو سو سو اونٹ دیئے اور عباس بن مرداس (انصاری) کو کچھ کم دیئے تو اس نے چند شعر کہے جن کا پہلا شعر یہ تھا۔ اتجعل نھبی و نھب العبید بین العیینہ والاقرع (یعنی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اور میرے گھوڑے عبید کا حصہ عیینہ اور اقرع کو دے رہے ہیں) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شکوہ کی خبر ملی تو آپ نے صرف انصار کو ایک خیمہ کے نیچے اکٹھا کیا پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کس نے یہ شعر کہا ہے اور جب آپ نے مندرجہ بالا شعر پڑھا تو اسے یوں پڑھا۔ اتجعل نھبی ونھب العبید بین الاقرع والعیینۃ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مصرعہ کا وزن توڑ دیا تو یہ سن کر ایک صحابی کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ ﴿وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہ﴾(مسلم۔ کتاب الجہاد وا لسیر۔ باب فتح مکۃ عن ابی ہریرہ) آپ نے زندگی بھر میں دو تین شعر کہے جنہیں اگر شعر کے بجائے منظوم کلام کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ وہ دراصل نثر کے ٹکڑے ہوتے جو بے ساختہ منظوم بن جاتے تھے اور وہ یہ ہیں۔ ١۔ آپ کے اشعار :۔ سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جہاد کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھوکر لگی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی انگلی خون آلود ہوگئی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انگلی کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا : ھَلْ أنْتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِیْتِ۔۔ وَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ مَا لَقِیْتِ ’’تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوگئی۔ اگر تو اللہ کی راہ میں زخمی ہوگئی تو کیا ہوا‘‘ (بخاری کتاب الادب۔ باب مایجوز من الشعر) ٢۔ جنگ حنین میں ایک موقعہ ایسا آیا جب بہت سے صحابہ میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت آپ ایک سفید خچر پر سوار بڑے جوش سے دشمن کی طرف بڑھ رہے تھے اور ساتھ ہی یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ۔۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ’’اس میں کوئی جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قولہ تعالیٰ یوم حنین اذ أعجبتکم کثرتکم) [ ٦٢] آپ کو شعر کیوں نہیں سکھایا گیا ؟ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت شاعرانہ اس لئے نہیں بنائی کہ یہ قرآن کتاب ہدایت ہے۔ جس میں دنیا و آخرت کی زندگی کے ٹھوس حقائق مذکور ہیں۔ جبکہ شاعری نری طبع آزمائی اور خیالی تک بندیاں ہوتی ہیں تو جب قرآن کی شاعری سے کوئی نسبت نہیں تو حامل قرآن کی طبیعت قرآن کے مزاج کے موافق ہونی چاہئے۔ نہ کہ شاعر کے موافق۔