فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
پس جس نے اس کے بعد اعراض کیا وہی لوگ فاسق ہیں
[٧٢]بائبل کیوں ناقابل اعتبار ہے:۔ اس پختہ عہد اور بشارتوں کے بعد بھی جو شخص تعصب کی راہ اختیار کرے اور اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار سمجھے اور مخالفت پر کمر بستہ ہوجائے تو اس سے زیادہ نافرمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جب عیسائیوں سے کہا جاتا ہے کہ تمہیں قرآن پر ایمان لانا چاہئے کیونکہ یہ تمہاری کتاب انجیل کی تصدیق کرتا ہے؟ تو وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ قرآن نہ تو عقیدہ الوہیت مسیح کی تصدیق کرتا ہے نہ مسیح کی ابنیت کو تسلیم کرتا ہے، نہ عقیدہ تثلیث کو اور نہ کفارہ مسیح کو تسلیم کرتا ہے۔ حالانکہ ہماری اناجیل سے یہ سب کچھ ثابت ہے۔ پھر ہم آپ کے قرآن پر کیسے ایمان لائیں اور کیوں کر اسے الہامی کتاب سمجھ سکتے ہیں؟ گویا جن غلط اور گمراہ کن عقائد کی اصلاح اور صحیح عقیدہ توحید کو پیش کرنے کے لیے قرآن نازل ہوا تھا اور حق و باطل کو نکھار کر ان کے اختلافات کا فیصلہ کرنے آیا تھا۔ یہ لوگ ان غلط عقائد سے کچھ اس طرح چمٹے ہوئے ہیں اور مذہبی تعصب کی پٹی ان کی آنکھوں پر کچھ اس طرح بندھی ہوئی ہے کہ وہ انہیں غلط عقائد کو اصل بنیاد قرار دے کر قرآن کی ہی تکذیب شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ ایسے غلط عقائد صدیوں بعد ان کے علماء کی طرف سے اناجیل میں شامل کردیئے گئے، اور یہ مجموعہ کچھ اس طرح الہامی مضامین اور الحاقی مضامین میں گڈمڈ ہوگیا کہ بعد میں آنے والے علماء کے لیے یہ معاملہ مشتبہ ہوگیا اور ان میں سے اصل الہامی مضامین کو الگ کرنا مشکل ہوگیا۔ یہی حال تورات کا بھی ہوا۔ بائیبل میں کئی ایسی داخلی شہادتیں آج بھی موجود ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ عبارت الہامی نہیں ہوسکتی۔ بلکہ لوگوں کی طرف سے شامل کی گئی ہے اور ایسی شہادتوں کا ہم نے کسی دوسرے مقام پر ذکر بھی کردیا ہے۔ ان کے مقابلہ میں قرآن کی سالمیت غیر مذاہب میں بھی مسلم ہے۔ پھر یہ کس قدر اندھیر کی بات ہے کہ ایسی تحریف شدہ کتابوں کو اصلی معیار قرار دے کر قرآن کریم کی تکذیب کی جائے۔