سورة فاطر - آیت 43

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ایسا انہوں نے زمین میں اپنے کبر و غرور اور بری سازشوں کی وجہ سے کیا، حالانکہ بری سازش ہمیشہ سازشیوں کے ہی گلے کا پھندا بن جاتی ہیں، پس کیا یہ لوگ اقوام گذشتہ کی مانند عذاب کا انتظار کر رہے ہیں، پس آپ اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، اور نہ آپ اللہ کے طریقے کو ٹلنے والا پائیں گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٤٩] یعنی ان چودھریوں اور سرداروں کا اپنے نبی کی مخالفت کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پہلے بھی سرکش اور نافرمان قومیں یہی کچھ کرتی رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ بھی ہمیشہ یہی رہی کہ وہ ایسے باغیوں کو سر کچلتا رہا۔ اور اپنے انبیاء کی اور اس پر ایمان لانے والوں کی سرپرستی کرتا اور ان کی مدد کرکے ان ظالموں سے نجات دلاتا رہا ہے۔ اور اللہ کا یہ ایسا طریقہ ہے جس میں تخلف یا تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ گویا اس آیت میں معاندین حق کے لئے یہ دھمکی اور پیشین گوئی تھی کہ اگر تم نے اپنا یہ معاندانہ رویہ نہ بدلا تو تمہیں بھی ایسے برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جس سے سابقہ اقوام دوچار ہوچکی ہیں۔ [ ٥٠] اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے مخالفوں کی کمر توڑ دے۔ اس دستور میں ایسا تغیر کبھی نہیں آسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان پر انعام و اکرام کرنے لگے یا ان مجرموں کی سزا دوسرے لوگوں کو دینے لگے۔