جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
یہ لوگ ” جنات عدن“ میں داخل ہوں گے جہاں انہیں سونے اور موتی کے کنگن پہنائے جائیں گے، اور ان جنتوں میں ان کا لباس ریشم کا ہوگا
[ ٣٨] نوابوں اور راجوں اور مہاراجوں میں یہ دستور تھا کہ وہ سونے کے کنگن پہنتے جن میں ہیرے اور جواہرات وغیرہ جڑے ہوتے تھے۔ نیز وہ ریشم کا نرم و نازک لباس پہنتے تھے یہی عیش و عشرت کی وہ انتہا تھی جو اس دنیا میں سمجھی جاسکتی تھی۔ اس لئے ان چیزوں کا نام لیا گیا۔ مقصد یہ ہے کہ جنت والوں کا لباس اور عیش و عشرت اس دنیا کے بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں سے کم نہ ہوگا۔ سونا اور ریشم اس دنیا میں امت مسلمہ کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے۔ جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں سب سے بڑی اور عام فہم بات ہے کہ جو لوگ ایسی عیاشیوں میں پڑ کر اپنی ذات پر ہی اس طرح خرچ کرنا شروع کردیں تو وہ غریبوں کا کیا خیال رکھ سکیں گے۔ یہی باتیں طبقاتی تقسیم اور اس سے آگے بہت بڑے فتنہ و فساد کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ مگر جنت میں چونکہ ایسی خرابیوں کا احتمال ہی نہ ہوگا۔ لہٰذا وہاں یہ چیزیں جائز ہوں گی۔