سورة فاطر - آیت 14

إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اگر تم انہیں پکارو گے تو وہ تمہاری پکار نہیں سنیں گے، اور اگر بالفرض سن بھی لیں تو وہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے، اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کردیں گے، اور تمہیں اس کے مانند کوئی خبر نہیں دے سکتا، جو ہر چیز سے باخبر ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٢٠] مشرکوں کی فریاد کیسے رائیگاں جاتی ہے؟ إسْتَجَابُوْا کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک کسی پکار یا سوال کا جواب دینے میں مثلاً ایک شخص مجھ سے پوچھتا ہے کہ کراچی شہر کہاں واقع ہے؟ تو میں اسے جواب دیتا ہوں کہ وہ پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اور دوسرا استعمال یہ ہے کہ کوئی شخص مثلاً مجھ سے ایک سو روپیہ مانگتا ہے تو اس کی استجابت کا تعلق فعل سے ہوگا خواہ میں اسے سو روپیہ دے دوں یا نہ دوں اور جواب دے دوں۔ ان بتوں کی کیفیت یہ ہے کہ یہ کچھ سنتے ہی نہیں اور بالفرض سنتے بھی ہوں تو پھر نہ وہ کوئی جواب دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر کچھ عمل درآمد کرسکتے ہیں گویا ان کے آگے درخواست پیش کرنا بالکل بے محل ہوگی مثلاً ایک شخص درخواست یہ لکھتا ہے کہ میرے گھر میں سوئی گیس کا کنکشن لگایا جائے لیکن وہ یہ درخواست سوئی گیس کے ہیڈ آفس میں بھیجنے کی بجائے محکمہ پولیس کے ہیڈ آفس میں بھیج دیتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اس درخواست پر کچھ عمل درآمد نہ ہوسکے گا خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے۔ اس لئے کہ سوئی گیس کا کنکشن دینا محکمہ پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ حالانکہ وہ لوگ سنتے سمجھتے ضرور ہیں۔ یہی حال ان مشرکوں کا ہے وہ اپنی درخواستیں وہاں پیش کرتے ہیں جن کے دائرہ اختیار میں کچھ ہے ہی نہیں۔ لہٰذا قیامت تک بھی مشرکوں کی اس درخواست پر کبھی عمل درآمد نہ ہوسکے گا۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿وَمَا دُعَاءُ الْکٰفِرِیْنَ الاَّ فِیْ ضَلاَلٍٍ [ ٢١] اس جملہ سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کے معبودوں کو قیامت کے دن حاضر کرلیا جائے گا۔ خواہ وہ پیغمبر تھے یا فرشتے تھے یا بزرگ اور مشائخ تھے۔ خواہ سیاسی قائدین تھے یا بت وغیرہ بے جان قسم کے معبود تھے۔ اور اس مقام پر تو بالخصوص بے جان معبودوں یا بتوں کا ذکر چل رہا ہے۔ یعنی بتوں میں بھی جان ڈال کر میدان محشر میں لاکھڑا کیا جائے گا۔ اور ان معبودوں اور ان کے عبادت گزاروں یعنی مشرکوں کے درمیان مکالمہ ہوگا۔ تو یہ بے جان بت بھی ڈٹ کر مشرکوں کے خلاف شہادت دینگے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان بتوں کے بجائے وہ مخصوص ارواح ہوں جو مشرکوں نے ان بتوں کے ساتھ تجویز کر رکھی ہیں۔ وہ معبود مشرکوں کو یہی جواب دیں گے کہ بدبختو! ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ تم ہماری عبادت کرنا اور اگر تم ہماری عبادت کرتے بھی رہے ہو تو ہمیں اس کی کچھ خبر نہیں ہے۔ [ ٢٢] قیامت کو معبود اپنے عابدوں کے دشمن بن جائیں گے :۔ خبیر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو موجود اور غیر موجود، گذشتہ اور آنے والے حالات سے پوری طرح خبردار ہے۔ اور اس کے سامنے کوئی چیز غیب ہے ہی نہیں بلکہ سب کچھ شہادت ہی شہادت ہے۔ اب اگر دوسرا کوئی شخص مستقبل کے متعلق کوئی خبر دے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقینی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی بنیاد ظن و تخمین پر ہوگی اس کے مقابلہ میں اللہ کی خبر یقینی ہے کیونکہ وہ آئندہ کے واقعات سے خبردار بھی ہے اور انہیں دیکھ بھی رہا ہے۔ اور اللہ کی بتائی ہوئی خبر یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر قسم کے معبود اپنے عبادت گزار مشرکوں کے خلاف گواہی دیں گے ان کی عبادت سے انکار کردیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے۔