الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
تمام تعریفیں (١) اللہ کے لئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا، اور ایسے فرشتوں کو اپنا پیغام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہیں، وہ اپنی مخلوقات کی تخلیق میں جو چاہے اضافہ کرتا ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
[ ١] فَطَرَ کا مفہوم :۔ پیدا کرنے کے معنوں میں قرآن کریم میں چھ مترادف الفاظ آئے ہیں۔ اور ہر لفظ کے مفہوم میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ فطر کا معنی کسی چیز کو پیدا کرنا، پھر اس کو تراش خراش کرکے اسے خوبصورت شکل دینا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں یا زمین یعنی کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اسے تراش خراش کر کے بہترین شکل و صورت پر بنایا ہے۔ [ ٢] پیغام رساں فرشتے :۔ فرشتوں کے ذمہ کئی قسم کے کام ہیں۔ جن میں سے ایک کام پیغام رسانی بھی ہے۔ پیغام رسانی کی ایک قسم تو معروف ہے کہ جبرئیل فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر نبی کے دل پر نازل ہوتا ہے۔ باقی صورتیں یہ ہیں کہ جو فرشتے تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں ان کے ہاں بھی بعض فرشتے اللہ کا حکم لے کر پہنچتے ہیں اور پیغام رسانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ [ ٣] فرشتوں کے پر اور سرعت رفتار :۔ فرشتوں کے پر کیسے ہوتے ہیں؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے ذہن میں تو پرندوں کے پر ہی آسکتے ہیں۔ جو فضا میں اڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو عطا کیے ہیں اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ جس فرشتے کو جتنی زیادہ سرعت رفتار سے اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا ہے اسی قدر اسے زیادہ پر عطا کیے جاتے ہیں، کم سے کم دو پر ہوتے ہیں پھر کسی فرشتے کے تین پر بھی ہوتے ہیں اور کسی کے چار بھی۔ اس آیت سے اس حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ فرشتے دراصل اللہ تعالیٰ کے خادم اور فرمانبردار بندے ہیں۔ وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے اور اتنا ہی کرتے ہیں جتنا انہیں حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے نہ اللہ کے حکم میں سرمو کمی بیشی کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ گویا اس آیت سے تمام مشرکوں کے اس نظریہ کی تردید ہوگئی جو انہیں ایک بااختیار بلکہ اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک سمجھ کر ان کی پرستش کرتے ہیں۔ [ ٤] ربط مضمون کے لحاظ سے اس جملہ کا معنی یہ ہوگا کہ بعض فرشتوں کے پر چار سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ جبرئیل ؑکو اس کی اصلی حالت میں دیکھا۔ اس کے چھ سو پر تھے۔ اور مشرق و مغرب کی پوری فضا اس سے بھری ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ نجم) اگر اس جملہ کو عام سمجھا جائے تو یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوگا۔ مثلاً وہ انسان کی نسل جتنی چاہے بڑھاتا رہتا ہے۔ حیوانات اور نباتات کی نئی سے نئی انواع وجود میں لاتا رہتا ہے۔ نئے سے نئے سیارے کائنات میں پیدا کرتا رہتا ہے اور کائنات کو ہر آن وسیع کر رہا ہے۔