قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ
فرشتے کہیں گے، میرے رب ! تیری ذات تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، تجھ سے ہی ہمارا تعلق ہے، ان سے نہیں، بلکہ یہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر لوگ انہی پر ایمان رکھتے تھے
[ ٦٣]اللہ کےسواجس کی بھی عبادت کی جائے وہ دراصل شیطان کی عبادت ہوتی ہے:۔ یہاں جن سے مراد شیاطین ہیں اور قرآن میں یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں کہیں گے ہمیں ان بدبخت مشرکوں سے کیا سروکار جنہوں نے تجھے چھوڑ کر ہمیں اپنا سرپرست سمجھ رکھا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا بھی سرپرست تو ہی ہے اور ان کا بھی تو ہی ہے اور تھا۔ مگر انہوں نے جو ہمیں اپنا سرپرست سمجھ رکھا تھا۔ تو ہم نے انہیں ایسی بات قطعاً نہیں کہی تھی۔ یہ پٹی ان کو شیطان نے پڑھائی تھی۔ اسی کی ترغیب پر یہ ہماری پوجا کرتے رہے تو دراصل یہ ہماری نہیں بلکہ ان شیطانوں کی پوجا کر رہے تھے جن کے یہ فرمانبردار بن کر ان کے کہنے پر لگ گئے تھے۔ [ ٦٤] یعنی کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا کہ جس غرض کے لئے انہوں نے کسی بت کے آگے نذریں نیازیں چڑھائیں تو ان کی غرض پوری ہوگئی یا بت کے اندر سے شیطان بول پڑا تو ایسی اتفاقی باتوں سے ان کا اعتقاد اور بھی پختہ ہوجاتا تھا۔ حالانکہ ان کی غرض بھی صرف وہی پوری ہوتی تھی جن کا پورا ہونا اللہ کی طرف سے پہلے ہی مقدر ہوچکا ہوتا تھا۔