وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن نُّؤْمِنَ بِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ
اور اہل کفر کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان (٢٦) نہیں لائیں گے، اور نہ اس کتاب پر جو اس سے پہلے آچکی ہے، اور کاش آپ ظالموں کا حال زار اس وقت دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے، ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرائیں گے، جو لوگ دنیا میں کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو متکبر بنے پھرتے تھے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لے آئے ہوتے
[ ٤٦] یعنی مشرکین مکہ صرف قرآن کے ہی منکر نہ تھے۔ بلکہ پہلی آسمانی کتابوں مثلاً تورات، انجیل وغیرہ کے بھی منکرتھے اور ان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان سب کتابوں کے مرکزی اور بنیادی مضامین ملتے جلتے تھے۔ سب کتابوں میں توحید کی دعوت دی گئی تھی اور شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا تھا۔ اسی طرح عقیدہ آخرت کے بارے میں بھی سب الہامی کتابیں ایک دوسری کی تائید و توثیق کرتی تھیں۔ اور یہی دو باتیں تھیں جن پر محاذ آرائی شروع ہوچکی تھی۔ اور مشرکین مکہ انھیں کسی قیمت پر بھی ماننے کو تیار نہ تھے۔ لہٰذاسب الہامی کتابوں کا انکار کردیتے تھے۔ [ ٤٧] قرآن کریم میں ان دو فریقوں کا مکالمہ بہت سے مقامات پر مذکور ہے۔ ایک فریق مطیع ہے یعنی کمزور قسم کے لوگ جو اپنے بڑوں کی اطاعت کرتے رہے۔ اور دوسرا فریق مطاع ہے یعنی بڑے لوگ جن کی اطاعت کی جاتی رہی۔ پھر ان بڑے لوگوں میں حکمران بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ سیاسی لیڈر، چودھری بھی، مولوی بھی، پروفیسر بھی یعنی ہر وہ شخص جو دینی یا دنیوی لحاظ سے عام لوگوں پر فوقیت رکھتا ہو۔ اور اس کی بات تسلیم کی جاتی رہی ہو اور یہ مکالمہ جہنم میں داخلہ سے پیشتر ہوگا۔ تاہم اس وقت تک سب لوگوں کو اپنا انجام معلوم ہوچکا ہوگا۔ [ ٤٨]مطیع اورمطاع لوگوں کامکالمہ :۔ کمزور لوگ یا اطاعت کرنے والے اپنے بڑے بزرگوں سے کہیں گے کہ ہماری گمراہی کا باعث تو تم ہی لوگ تھے۔ اگر تم لوگ ہمیں انبیاء کے خلاف استعمال نہ کرتے تو ہم یقیناً ان پر ایمان لے آتے اور اس برے انجام سے ہمیں دو چار نہ ہونا پڑتا۔