وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لئے خوشخبری (٢٤) دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ہیں
[ ٤٣] آپ افضل الانبیاء بھی ہیں اور خاتم النبیین بھی:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف عرب کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے اور صرف اپنے دور کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے اللہ کے رسول، ایمانداروں کو جنت کو بشارت دینے والے اور منکرین حق کو اخروی انجام بد سے ڈرانے والے ہیں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے سب انبیاء کسی خاص قوم کے لئے، کسی خاص علاقہ کے لئے اور کس خاص دور کے لئے مبعوث کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ مضمون قرآن کریم میں بھی متعدد مقامات پر وارد ہوا ہے اور احادیث صحیحہ میں بھی کثرت سے وارد ہے اس مضمون سے دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ آپ سب انبیاء سے افضل و اشرف ہیں۔ اور دوسری یہ کہ آپ کے بعد تاقیامت کوئی رسول یا نبی آنے والا نہیں۔ لہٰذا صرف اہل عرب کو نہیں بلکہ بیرون عرب تبلیغ کی بھی ذمہ داری آپ پر عائد تھی۔ صلح حدیبیہ تک تبلیغ اسلام کا جتنا کام ہوا تھا وہ سب اندرون عرب ہی ہوا تھا۔ صلح حدیبیہ کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ آپ ابھی تک بیرون عرب تبلیغ پر توجہ ہی نہ دے سکے تھے اور چاہتے تھے کہ چاروں طرف سے بیرونی خطرات سے کچھ سکون ملے تو ادھر توجہ کی جائے۔ صلح حدیبیہ کے بعد فوراً یہود خیبر کی سرکوبی کی گئی۔ پھر آپ نے ہمسایہ ممالک کے سربراہوں کو تبلیغی خطوط لکھنے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو صحابہ کرام نے یہ عرض کیا کہ ملوک عجم صرف اس خط کو پڑھتے ہیں جس پر مہر لگی ہو چنانچہ آپ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ کندہ تھے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گویا اب بھی اس مہر کی چمک اور نقوش دیکھ رہا ہوں (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب الشھادۃ علی الخط المختوم۔۔) اور ایک روایت میں ہے کہ ان الفاظ کی ترتیب یہ تھی کہ سب سے اوپر اللہ کا لفظ تھا اس کے نیچے رسول کا اور اس کے نیچے محمد کا۔ اس زمانہ میں دو بڑی سلطنتیں تھیں ایک روم کی، دوسرے ایران کی۔ اس لئے پہلے ہم انہی کا ذکر کرتے ہیں۔ قیصرروم کوآپ کانامہ مبارک:۔روم کا شہنشاہ ہرقل خود تورات اور انجیل کا عالم تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ نبی آخر الزمان کے ظہور کا وقت آچکا ہے۔ اور نبی آخر الزماں کی خبریں اسے پہنچ بھی چکی تھیں اور وہ دل سے جان چکا تھا کہ نبی آخر الزمان آچکا ہے جس کی بشارات تورات اور انجیل میں موجود ہیں۔ پھر اس موقع سے چودہ سال پیشتر جب شہنشاہ روم کو ایران کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی تو قرآن نے سورۃ روم کے دوبارہ فتح پانے کی خوشخبری دی تھی۔ جبکہ ایسی معجزانہ فتح کے دور دور تک کہیں آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اور یہ پیشین گوئی فتح بدر کے دن پوری ہوچکی تھی۔ اس سے بھی نبی آخر الزمان کی صداقت کا یقین ہوچکا تھا۔ اور اس فتح سے وہ اتنا خوش ہوا تھا کہ پیدل بیت المقدس پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا شکرانہ ادا کیا تھا۔ اس کی طرف آپ نے دحیہ کلبی کو خط دے کر بھیجادحیہ کلبی ایک خوش شکل صحابی تھے، جن کی شکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی اور جبرئیل علیہ السلا م جب بھی انسانی شکل میں آپ کے پاس آتے تو دحیہ کلبی ہی کی شکل میں آتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کی طرف جو خط لکھا اس کا مضمون یہ تھا : ”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے ہرقل رئیس روم کے نام، اما بعد! میں تمہیں اسلام کے کلمہ کی طرف بلاتا ہوں اگر مسلمان ہوجاؤ تو سلامتی سے رہو گے اور اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا اور اگر اعراض کیا تو رعایا کا بار گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔ پھر آپ نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت لکھوائی۔ اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہم اور تم میں یکساں ہے۔ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو اے پیغمبر! تم ان سے کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی) دحیہ کلبی یہ خط لے کر حارث غسانی حاکم بصریٰ کے پاس پہنچے تاکہ وہ باضابطہ طور پر اسے شہنشاہ روم تک پہنچا دے۔ اس نے دحیہ کلبی کو شہنشاہ روم کے ہاں جانے کی اجازت دے دی وہاں جاکر حضرت دحیہ کلبی کو معلوم ہوا کہ ہرقل بیت المقدس آیا ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیت المقدس پہنچ کر یہ گرامی نامہ بادشاہ کے حوالہ کردیا۔ وہ خود تو دل سے ایمان لا چکا تھا اور چاہتا یہ تھا کہ اس کی رعایا بھی اس کے ساتھ مسلمان ہوجائے تاکہ اس کی سلطنت اسی کے پاس بحال رہ جائے۔ اس کے لئے وہ تدبیریں سوچنے لگا۔ آخر ایک تدبیر اس کے ذہن میں آئی۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کیا ان دنوں قریش کا تجارتی قافلہ یہاں آیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ ہاں ابو سفیان کا قافلہ آیا ہوا ہے۔ اور غزہ میں مقیم ہے۔ بادشاہ نے ابو سفیان کو اپنے ہاں بلوایا۔ اور دریں اثنا اس نے گیارہ سوالات پر مشتمل ایک ایسا سوالنامہ تیار کیا جس سے حقیقت کھل کر سامنے آجائے۔ یہ سوال بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی وکیل اپنے موقف کی وضاحت کے لئے جرح کے دوران کیا کرتا ہے۔ اور اس سے اپنا مقصد یہ تھا کہ اس کے امیر و وزیر، فوجی افسر اور رعایا اسلام کی طرف مائل ہوجائیں اور اسلام لانا اس کے لئے سہل ہوجائے اب وہ سوالنامہ ابو سفیان کے جواب اور بعد میں اس پر اس کا اپنا تبصرہ صحیح بخاری سے درج کرتے ہیں۔ ابو سفیان کے ساتھ دو اور ساتھی بادشاہ کے سامنے پیش کئے گئے۔ بادشاہ نے اپنے سامنے ابو سفیان کو کھڑا کیا اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے اور ساتھیوں سے یہ کہہ دیا کہ اگر ابو سفیان کسی سوال کے جواب میں جھوٹ بولے تو فوراً اس ٹوک دینا۔ ایک ترجمان درمیان میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ابو سفیان خود اپنے اسلام لانے کے بعد کہتے ہیں کہ اس دن ان سوالات نے میرا گھیرا اس قدر تنگ کردیا تھا کہ میں جھوٹ بولنا چاہتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ بادشاہ نے ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو دربار میں حاضر ہونے پر پوچھا تم میں سے کون اس پیغمبر کا نزدیکی رشتہ دار ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں ہوں۔ چنانچہ سوال و جواب شروع ہوگئے۔ جس کے راوی بھی ابو سفیان ہی ہیں : ہرقل اورابوسفیان کا مکالمہ:۔ قیصر نے پوچھا : تم میں اس پیغمبر کا خاندان کیسا ہے؟۔ میں نے کہا : اس کا نسب اچھا ہے۔ قیصر : تم میں سے پہلے بھی کسی نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا ؟ میں نے کہا : نہیں۔ قیصر : اس كی پیروی امیر لوگ کر رہے ہیں یا غریب؟ میں نے کہا : غریب لوگ۔ قیصر : اس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا : بڑھتے جاتے ہیں۔ قیصر : کوئی شخص اس پر ایمان لاکر پھر اسے برا سمجھ کر پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا۔ نہیں قیصر : نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے اسے کبھی جھوٹ سے متہم کیا ہے؟ میں نے کہا، نہیں ۔ قیصر : اس نے کبھی عہد شکنی کی ہے؟ میں نے کہا نہیں، اب ہم نے صلح کا معاہدہ کیا ہے۔ دیکھیں اب وہ کیا کرتا ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں مجھے اس بات کے علاوہ کوئی اور بات شامل کرنے کی گنجائش نہ مل سکی۔ قیصر : کیا تم نے اس سے کبھی جنگ کی؟ میں نے کہا ہاں ۔ قیصر : پھر اس لڑائی کا نتیجہ کیا رہا ؟ میں نے کہا : لڑائی تو ڈول کی طرح ہے۔ کبھی ہمارا نقصان کبھی اس کا۔ قیصر : اچھا تمھیں وہ کیا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا : وہ کہتا ہے بس ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ اپنے باپ دادا کی باتیں چھوڑ دو۔ وہ نماز پڑھنے، سچ بولنے، حرام کاری سے بچنے اور ناتا جوڑنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ گیارہ سوال کرنے کے بعد ہرقل نے ابو سفیان کے جوابات پر جو اپنی طرف سے تبصرہ کیا وہ درج ذیل ہے : میں نے تم سے اس کا خاندان پوچھا تو تم نے کہا وہ صاحب نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں صاحب نسب اور اعلیٰ خاندان ہی سے بھیجے جاتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کسی نے اس کے خاندان سے پیغمبری کا دعویٰ کیا تو تم نے کہا نہیں۔ اگر کسی نے دعویٰ کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ شخص اس کی پیروی میں دعویٰ نبوت کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کے بزرگوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے تو تم نے کہا نہیں۔ اگر کوئی بادشاہ ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ اپنے باپ کی بادشاہت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میں نے تم سے پوچھا، اس نے کبھی جھوٹ بولا ؟ تو تم نے کہا نہیں۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ جو شخص لوگوں پر جھوٹ باندھنے سے پرہیز کرے وہ اللہ پر جھوٹ باندھے۔ میں نے تم سے پوچھا، کہ اس کی اطاعت امیروں نے کی ہے یا غریبوں نے؟ تو تم نے کہا غریبوں نے۔ اور پیغمبروں کے تابعدار غریب ہی ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے پیروکار بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں تو تم نے کہا بڑھ رہے ہیں۔ اور ایمان کا یہی حال ہوتا ہے تاآنکہ وہ پورا ہوجائے۔ میں نے تم سے پوچھا کہ کوئی شخص اسلام لانے کے بعد اس سے بیزار ہو کر نکلا بھی ہے؟ تو تم نے کہا نہیں۔ اور ایمان کا یہی حال ہے جب اس کی بشاشت دل میں سما جاتی ہے۔ میں نے پوچھا، وہ عہد شکنی کرتا ہے تو تم نے کہا نہیں۔ اور پیغمبر کبھی اپنا عہد نہیں توڑا کرتے۔ میں نے پوچھا : وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے تو تم نے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ وہ تمہیں بت پرستی سے منع کرتا ہے۔ نماز اور سچائی کا اور حرام کاری سے بچ رہنے کا حکم دیتا ہے اگر تمہاری یہ سب باتیں سچ ہیں تو وہ عنقریب اس جگہ کا مالک ہوجائے گا جہاں میرے یہ پاؤں ہیں۔ اور میں یہ جانتا تھا کہ یہ پیغمبر آنے والا ہے لیکن یہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اور اگر میں جانوں کہ میں اس تک پہنچ جاؤں گا تو اسے ضرور ملنے کی کوشش کروں گا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔ یہ کہہ کر بادشاہ نے آپ کا نامہ مبارک سب کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ جب درباریوں اور امیروں، وزیروں نے بادشاہ کو اس حد تک اسلام کی طرف مائل دیکھا تو غصہ سے ان کے نتھنے پھولنے اور آنکھیں سرخ ہونے لگیں۔ شور مچا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابو کبشہ کے بیٹے (یہ آپ کے رضاعی باپ کی کنیت تھی اور ابو سفیان نے ازراہ حقارت یہ نام لیا تھا) کا تو بڑا درجہ ہوگیا۔ اس سے تو رومیوں کا بادشاہ ڈرتا ہے۔ اس دن سے مجھے یقین ہوگیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غالب ہوں گے۔ تاآنکہ اللہ نے مجھے مسلمان کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی) اعیان سلطنت کی اسلام سےنفرت اورقیصرروم کی بےبسی :۔رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے ہرقل نے دوسرا کام یہ کیا کہ آپ کا نامہ مبارک ایک ممتاز عالم دین اور اپنے دوست ضغاطر کے پاس بھیج دیا۔ بعد میں خود بھی اس کے پاس پہنچ گیا۔ نبی آخرالزمان کے ظہور کے متعلق ضغاطر کی رائے بھی ہرقل کے موافق ثابت ہوئی۔ جسے ہرقل نے اپنی بھرپور تائید سمجھ کر رومی سرداروں کو اپنے حمص والے محل میں بلایا۔ اس کے دروازے بند کروادیئے اور خود بالاخانے سے برآمد ہوا اور کہنے لگا۔ رومی سردارو! کیا تم اپنی کامیابی، بھلائی اور اپنے اپنے مناصب پر بحال رہنا چاہتے ہو؟ اگر چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو یہ سنتے ہی وہ لوگ مشتعل ہو کر جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف لپکے۔ دیکھا تو وہ بند ہیں۔ جب ہرقل کو معلوم ہوا کہ انھیں ایمان لانے سے اس قدر نفرت ہے اور ان کے ایمان لانے سے ناامید ہوگیا تو کہنے لگا، ان سرداروں کو میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آئے تو انھیں کہنے لگا کہ میں نے یہ بات صرف تمہیں آزمانے کو کہی تھی کہ تم اپنے دین میں کتنے مضبوط ہو اور وہ مجھے معلوم ہوگیا اس پر سرداروں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے یہ تھی ہرقل کی آخری صورت حال۔ (بخاری۔ کتاب الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی) اس طویل حدیث سے، جسے امام مسلم نے پورے کا پورا درج کیا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہرقل کو پورا یقین ہوچکا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور وہ دل سے ایمان لا بھی چکا تھا مگر اعیان سلطنت کے ڈر سے اپنے اس ایمان کا برملا اظہار نہ کرسکا۔ وہ نہ تو اپنی رعایا کی رائے عامہ کو اپنے حق میں سازگار کرنے میں کامیاب ہوسکا اور نہ ہی ایسی جرات کا مظاہرہ کرسکا کہ ایمان کی خاطر خود سلطنت سے دستبردار ہوجائے وہ اپنے اعیان سلطنت سمیت ایمان لانا چاہتا تھا تاکہ اسلام لانے کے بعد سلطنت بھی اسی کے پاس رہے۔ لیکن اس کے متعصب اعیان سلطنت نے اس کی یہ آرزو پوری نہ ہونے دی۔ ٢۔ دوسری بڑی سلطنت شہنشاہ ایران یا کسریٰ فارس کی تھی۔ اس کا نام پرویز تھا۔ نوشیروان عادل کا پوتا اور ہرمز کا بیٹا تھا۔ انتہائی متکبر انسان اور کبر و نخوت کا پتلا تھا۔ زرتشتی مذہب کا قائل تھا، نہ آخرت کا قائل تھا نہ انبیاء کا۔ مشرک اور آتش پرست تھا۔ مسلمانوں کے مقابلہ میں قریش مکہ کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں اور اسے ہی بدر کے دن قیصر روم کے ہاتھوں شکست بھی ہوئی تھی۔ اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ کو اپنا نامہ مبارک دے کر بھیجا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے حاکم منذر بن ساری کو پہنچائے وہ اسے شاہ ایران تک پہنچا دے گا۔ خط کا مضمون یہ تھا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے عظیم فارس کے نام۔ سلامتی اس شخص کے لئے جو ہدایت کی اتباع کرے۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ اللہ نے مجھے تمام دنیا کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ وہ ہر زندہ شخص کو اللہ کا خوف دلائے۔ اسلام قبول کرلو تو سلامت رہو گے اور اگر تم نے یہ بات تسلیم نہ کی تو تمام مجوس کا بار گناہ بھی تم پر ہوگا‘‘ پرویز کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےنامہ مبارک کو پھاڑنا اور اس کا قتل ہونا: عجم کا طریقہ یہ تھا کہ جو خط سلاطین کو لکھے جاتے ان میں بادشاہ کا نام سب سے پہلے ہوتا تھا اور مکتوب نگار کا بعد میں مگر یہاں ترتیب بالکل برعکس تھی سب سے پہلے اللہ کا نام تھا پھر رسول اللہ کا اور پھر کسریٰ کا۔ اسی بات پر ہی وہ سیخ پا ہوگیا۔ حضرت عبداللہ سے کہا : اگر تم قاصد نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کرا دیتا۔ پھر کہنے لگا کہ میں ایسے گستاخ شخص کے لئے ابھی گرفتاری کا فرمان جاری کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ کا نامہ مبارک پھاڑ ڈالا۔ اور کچھ عرصہ بعد جب حضرت عبداللہ نے واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے خط پھاڑنے کا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ایسے ہی اس کی سلطنت کو پھاڑ ڈالے گا۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب ماذکر فی المناء في المناولة و كتاب اهل العلم) چنانچہ آپ کی یہ پیشین گوئی خلفائے راشدین کے دور میں حرف بہ حرف پوری ہوگئی۔ چنانچہ پرویز شاه ایران نے یمن کے حاکم باذان کو، جو شاہ ایران کا باجگذار تھا، خط لکھا کہ عرب میں جس شخص نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو۔ ان دنوں عرب قبائل کی بالکل وہی نوعیت تھی جیسے پاکستان اور آزاد قبائل کی ہے۔ آزاد قبائل کئی باتوں میں آزاد ہیں اور بعض امور میں پاکستان سے ملحق ہیں۔ ایسے ہی کسریٰ عرب قبائل کو اپنی ہی سلطنت کا حصہ تصور کرتا تھا۔ جس کی بنا پر اس نے حاکم یمن کو ایسا خط بھیجا تھا۔ چنانچہ باذان نے دو آدمی مدینہ بھیجے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچ کر عرض کی شہنشاہ عالم کسریٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ہے اگر اس کے حکم کی تعمیل نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ و برباد کردے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قاصدوں سے کہا کہ اب رات ہوگئی ہے۔ تم اب کل آنا۔ دوسرے دن جب وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : کہ تمہارے شہنشاہ عالم کو تو آج رات اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جاؤ اور اسے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ تخت تک پہنچے گی۔ باذاان حاکم یمن کاقبول اسلام:۔جب یہ قاصد واپس یمن پہنچے تو اس وقت تک یمن میں پرویز شاہ ایران کے قتل ہونے کی خبر پہنچ چکی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر باذان خود بھی مسلمان ہوگیا۔ یہ قاصد بھی اور رعایا کے اور بھی بھی بہت سے لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ ٣۔ شرحبیل کا قاصد کو قتل کرنا اور غزوہ مُوتہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرا خط بصریٰ کو لکھا جس کا نام شرحبیل بن عمرو غسانی تھا۔ اس کا علاقہ مدینہ کے شمال یمن شام کی سرحد پر واقع تھا۔ غسانی اگرچہ عرب تھے لیکن ایک مدت سے عیسائی ہوچکے تھے۔ ان کا دارالحکومت بصریٰ تھا اور شرحبیل قیصر روم کے ماتحت اور اس کا باجگذار تھا۔ اس کے پاس آپ کے قاصد حارث بن عمیر خط لے کر گئے تو اس بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو شہید کردیا۔ یہ چونکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف لشکر کشی کی تیاری شروع کردی اور جمادی الاول ٨ ھ میں تین ہزار کا لشکر روانہ فرمایا اور اس کا سپہ سالار زید بن حارثہ کو مقرر فرمایا۔ جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر زید شہید ہوجائیں تو پھر جعفر بن طیار جھنڈا سنبھالیں اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ موتہ من ارض الشام) اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے آپ بنفس نفیس مدینہ سے باہر کچھ دور تک تشریف لے گئے۔ شرحبیل کو بھی اسلامی لشکر کشی کی خبر ہوچکی تھی۔ اس نے اس مقابلہ کے لیے ایک لاکھ فوج تیار کی۔ جب مسلمانوں کو اس صورت حال کا علم ہوا وہ تردد میں پڑگئے کہ تین ہزار ایک لاکھ کی کیا نسبت ہے؟ چنانچہ حضرت زید کی رائے یہ تھی کہ ابھی توقف کیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کرکے مدینہ سے مزید کمک منگوائی جائے۔ لیکن عبداللہ بن رواحہ کہنے لگے کہ ہم تو شہادت کی متمنی ہیں۔ فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر ہم تاخیر کیوں کریں۔ چنانچہ فوری طور پر مقابلہ کرنے پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اسلامی لشکر کی بے مثال جرأت: موتہ کے مقام پر دونوں فوجوں کا آمناسامنا ہوا۔ اگرچہ مسلمان شوق شہادت میں انتہائی بے جگری سے لڑے مگر تین ہزار کا مقابلہ دو لاکھ سے تھا۔ صحابہ کرام نے بہادری و شجاعت کے بے مثال کارنامے انجام دئیے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جھنڈا جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حقیقی بھائی تھے، سنبھالا۔ آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو جھنڈا بائیں ہاتھ میں سنبھالے رکھا۔ وہ بھی کٹ گیا تو ٹانگوں سے دبائے اور اٹھائے رکھا۔ آپ جس بے جگری اور بہادری سے لڑے۔ اس کے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جعفر شہید ہوگئے تو میں ان کی لاش پر کھڑا ہوا۔ میں نے ان کے جسم پر تیروں اور تلواروں کے پچاس زخم دیکھے اور ان میں سے کوئی زخم بھی ان کی پشت پر نہیں تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) لیکن لڑائی کے بعد جب سب لوگوں نے یہ نشان شمار کئے تو یہ نوے نشان تھے۔ (حوالہ ایضاً) ان کے دونوں بازو کٹ گئے تھے ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ انھیں جنت میں دو پر عطا کئے گئے اسی نسبت سے ان کا لقب طیار بھی مشہور ہوگیا تھا اور ذوالجناحین بھی۔ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے سلام کرتے تو کہتے : دو پروں والے کے بیٹے! تم پر سلام۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھالا اور بالآخر وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھالا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آزمودہ کار جرنیل تھے۔ جنگ احد میں انہوں نے درہ خالی دیکھ کر حملہ کرکے مسلمانوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ آپ نے باقی فوج کو اس انداز سے از سر نو ترتیب دیا کہ وہ اپنی اصل تعداد میں بہت زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر دشمن نے جو ان سے بیسیوں گنا زیادہ تھے اسلامی لشکر کو ہر طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ حضرت خالد نے پورے جوش سے حملہ کرکے ایک مقام سے اس گھیرے کو توڑ دیا اور اسلامی فوج کو دشمن کے محاصرہ سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ ادھر یہ کارروائی ہو رہی تھی ادھر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے ان الفاظ میں اطلاع دے دی۔ پہلے زید نے جھنڈا سنبھالا وہ شہید ہوئے، پھر جعفر نے جھنڈا سنبھالا وہ شہید ہوئے، پھر عبداللہ بن رواحہ نے سنبھالا وہ شہید ہوئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ پھر فرمایا اس کے بعد اللہ کی تلواروں میں ایک تلوار نے جھنڈا سنبھالا یہاں تک کہ اللہ نے اس کے ہاتھ پر فتح دی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) خالد بن ولید سیف اللہ کا نمایاں کارنامہ:چنانچہ اسی دن سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا لقب ’’سیف اللہ‘‘ یعنی اللہ کی تلوار مشہور ہوگیا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ غزوہ موتہ کے دن میرے ہاتھ پر نو تلواریں ٹوٹیں صرف ایک یمنی تیغہ میرے ہاتھ میں رہ گیا تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) آپ کا نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلامی لشکر کو دشمن کے نرغہ سے نکال لیا۔ اور خیر و عافیت سے بچا لائے اور اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح قرار دیا تھا۔ جب یہ لشکر واپس مدینہ آیا تو بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ یہ لوگ جنگ سے بھاگ آئے ہیں اور انھیں ایسا طعنہ بھی دیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرزور تردید فرمائی اور فرمایا یہ جنگ بھگوڑے نہیں بلکہ پینترا بدل کر لڑنے والوں کے ضمن میں آتے ہیں۔ جس میں ایک بات کی طرف اشارہ تھا کہ ابھی ہمارا کام باقی ہے۔ اور وہ باقی کام غزوہ تبوک تھا۔ جس کا ذکر سورۃ توبہ میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ نجاشی کے نام خط: اس کا جواب اور قبول اسلام:٤۔ چوتھا خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی شاہ حبشہ کے نام لکھا۔ حبشہ میں مسلمان مہاجرین مقیم تھے اور نجاشی نے ان سے نہایت اچھا سلوک کیا یہ خود عیسائی تھا اور قیصر روم کا باجگزار تھا۔ مگر اسلام کی دعوت کو دل سے تسلیم کرچکا تھا۔ اور بعض روایات کے مطابق اس نے حضرت جعفر طیار کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس کی طرف آپ نے عمرو بن امیہ ضمری کو نامہ مبارک دے کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے نجاشی اصمحہ شاہ حبش کے نام۔ تجھ پر سلام ہو میں اللہ کی حمد و ستائش کرتا ہوں جو پاک ہے۔ اور ایمان اور سلامتی دینے والا ہے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ بن مریم اللہ کی مخلوق اور اس کا کلمہ ہیں۔ جسے اللہ نے پاکباز مریم کی طرف القاء کیا اور وہ عیسیٰ سے حاملہ ہوئیں تو اللہ نے انھیں پیدا فرمایا۔ اپنے نفخہ اور اپنے روح سے۔ میں تمہیں اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں۔ ایمان لے آؤ تو سلامتی سے رہو گے اور میری پیروی کرو کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں نے اس سے پہلے اپنے چچیرے بھائی جعفر کو مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تمہارے پاس بھیجا ہوا ہے۔ انھیں آرام سے رکھنا۔ نجاشی تکبر چھوڑو۔ میں تمہیں اور تمہارے درباریوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں دیکھو! میں نے تمہیں اللہ کا حکم پہنچا دیا اور خوب سمجھا دیا۔ اب مناسب ہے کہ میری نصیحت قبول کرو اور سلامتی اس شخص کے لئے ہے جو ہدایت قبول کرے۔ ‘‘ جب یہ خط نجاشی کو ملا تو اس نے جعفر کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور جواباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحریر کیا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی اصحم بن ابجر کی طرف سے۔ اے اللہ کے نبی! آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکتیں ہوں اس اللہ کی جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور جس نے ہمیں اسلام کی طرف ہدایت فرمائی۔ امابعد۔ آپ کا فرمان میرے پاس پہنچا حضرت عیسیٰ کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا ہے، اللہ کی قسم وہ اس سے ذرہ بھر بھی بڑھ کر نہیں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سیکھ لی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد بھائی اور مسلمان میرے پاس آرام سے ہیں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی کے ہاتھ پر بیعت اور اللہ کی فرمانبرداری کا اقرار کرلیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے ارہا کو روانہ کرتا ہوں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا ہو کہ میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں تو میں ضرور حاضر ہوجاؤں گا۔ کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو فرماتے ہیں، وہی حق ہے۔ والسلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ نجاشی نے اپنے بیٹے ارہا کو ساٹھ آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا مگر راستہ میں یہ جہاز مسافروں سمیت غرق ہوگیا۔ ٥۔ ان دنوں مصر کے حکمران مقوقس کہلاتے تھے۔ مصر کا مقوقس عیسائی اور اہل علم آدمی تھا اور قیصر روم کے زیر اثر تھا۔ اس کا دارالحکومت موجودہ اسکندریہ تھا۔ اس کے ہاں آپ نے حاطب بن ابی بلتعہ کو درج ذیل خط دے کر روانہ فرمایا : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے مقوقس مصر قبط کے نام۔ اس پر سلامتی ہے جس نے ہدایت کا اتباع کیا۔ بعد ازاں میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ مسلمان ہوجاؤ، سلامتی پاؤ گے اور اللہ تمہیں دگنا اجر عطا فرمائے گا۔ اور اگر تم نے نہ مانا تو تمام قبطیوں کا بار گناہ تم پر ہوگا۔ اے اہل کتاب اس کلمہ کی طرف آؤ۔ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں۔ مقوقس بھی حقیقت سمجھ چکا تھا مگر اسے بھی قیصر روم کی طرح اسلام لانے کی جرات نہ ہوئی تاہم اس نے قاصد کو جواب میں ایک خط اور کچھ تحائف دے کر عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ خط کا مضمون یہ تھا : محمد بن عبداللہ کی طرف مقوقس رئیس قبط کی طرف سے سلام علیک کے بعد۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے لیکن میں سمجھتا تھا کہ وہ شام میں ظہور کرے گا۔ میں نے آپ کے قاصد کی عزت کی۔ دو لڑکیاں بھیج رہا ہوں جن کی قبطیوں میں بہت عزت کی جاتی ہے۔ اور میں آپ کے لئے کپڑا اور آپ کی سواری لئے ایک خچر بطور ہدیہ بھیجتا ہوں۔ والسلام یہ دو لڑکیاں جن کا نام ماریہ اور سیرین تھا۔ راہ میں ہی حاطب بن ابی بلتعہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوگئی تھیں یہ شاہی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان میں سے ماریہ سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح کرکے حرم میں شامل کرلیا اور اسی کے بطن سے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے اور سیرین حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حبالہ عقد میں آئیں۔ اور یہ دونوں حقیقی بہنیں تھیں۔ اور خچر سفید رنگ کی قدآور اور خوبصورت تھی اس کا نام دُلدُل تھا۔ جنگ حنین میں آپ اسی خچر پر سوار تھے۔ ٦۔ والی بحرین کا قبول اسلام: چھٹا خط آپ نے منذر بن ساویٰ والی بحرین کے نام حضرت علاء بن حضرمی کے ہاتھ روانہ فرمایا۔ یہ حکمران ساسانی یا ایرانی بادشاہوں کے زیرِاثر اور باجگزار تھے اور رعایا میں سے کچھ لوگ یہودی تھے اور کچھ مجوسی۔ جب اس کے پاس آپ کا گرامی نامہ پہنچا تو اس نے اسلام قبول کرلیا لیکن اس کی رعایا میں کچھ لوگ تو مسلمان ہوگئے اور کچھ اپنے سابقہ مذہب پر قائم رہے۔ ان کے متعلق منذر سے بارگاہ رسالت سے حکم دریافت فرمایا۔ آپ نے منذر کی سعادت اور صلاحیت کو بنظر عزت دیکھا اور یہود اور مجوس سے جزیہ وصول کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ یہ جزیہ تو مدینہ کے بیت المال میں جاتا تھا اور بحرین کی حکومت ان ہی کے پاس رہی۔ ٧۔ اہل عمان کا قبول اسلام: عمان میں جیفر بن جلندی اور عبداللہ بن جلندی دو بھائیوں کی حکومت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اپنا خط دے کر بھیجا۔ ان دونوں بھائیوں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ طویل مکالمہ اور گہرے غوروخوض کے بعد اسلام قبول کرلیا اور ان کے اثر سے رعایا کا اکثر حصہ بھی اسلام لے آیا۔ ٨۔ والی یمامہ ہوذہ کی شرط قبولِ اسلام اور آپ کا جواب: آٹھواں خط آپ نے ہوذہ بن علی والی یمامہ کے نام لکھا جو قبیلہ بنو حنیفہ کا رئیس تھا۔ حضرت سلیط بن عمر بن عبدشمس اس کے ہاں آپ کا نامہ مبارک لے کر گئے۔ ہوذہ نے قاصد رسول صلی اللہ علیہ ولم کی خوب عزت و تکریم کی اور تحائف بھی دیئے اور جواب میں آپ کو لکھا کہ جن باتوں کی طرف آپ بلاتے ہیں ان کے مستحسن ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مگر آپ کو معلوم ہے کہ اہل عرب مجھے عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے دلوں میں میری ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لئے اگر حکومت کا نصف حصہ اور مخصوص اختیارات مجھے دیئے جائیں تو اسلام لانے کے لئے تیار ہوں۔ آپ نے یہ خط دیکھ کر فرمایا کہ ایک بالشت بھر زمین بھی مانگے تو نہیں مل سکتی۔ وہ خود اور اس کا مال و متاع عنقریب فنا ہونے والا ہے۔ پھر جب آپ فتح مکہ کے بعد عازم مدینہ ہوئے تو بذریعہ وحی آپ کو خبر مل گئی کہ ہوذہ حاکم یمامہ اس دنیا کو چھوڑ گیا ہے نیز آپ نے صحابہ کو یہ اطلاع بھی دی کہ یمامہ میں ایک جھوٹا مدعی نبوت پیدا ہوگا جو میرے بعد قتل کیا جائے گا۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کا قصہ سورۃ مائدہ کے حاشیہ نمبر ٩٤ اور سورۃ احزاب کے حاشیہ نمبر ٦٦ میں مذکور ہے۔ یہ جھوٹا نبی آپ کی پیشین گوئی کے مطابق خلافت صدیقی میں حضرت حبشی کے ہاتھوں مارا گیا۔ ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نواں خط حارث غسانی حاکم حدود شام کی طرف حضرت شجاع بن وہب کو دے کر بھیجا۔ یہ دمشق اور آس پاس کے علاقوں کا حاکم اور قیصر روم کا باجگزار تھا۔ جب اسے نامہ مبارک ملا تو پہلے تو بہت بگڑا اور مدینہ پر حملہ کی دھمکی بھی دی مگر بعد میں آپ کے قاصد کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ لیکن اسلام قبول نہیں کیا۔ ہمسایہ ممالک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط بھیجنے اور اس کے ردعمل سے اسلام اور مسلمانوں کو چند در چند فوائد حاصل ہوگئے۔ مثلاً۔ (١) اس ذریعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت کا فریضہ انجام دیا جو اللہ کی طرف سے آپ پر گرانبار ذمہ داری تھی اور پہلے اس کا موقعہ نہیں مل رہا تھا۔ (٢) ان تبلیغی خطوط سے بعض حکمران اور ان کی رعایا اسلام لے آئے جیسے حبشہ، یمن، عمان اور بحرین کے حکمرانوں نے اسلام قبول کرلیا۔ رعایا میں سے بھی بہت سے مسلمان ہوگئے۔ اور کچھ حکمران اسلام کے قریب ہوگئے۔ تاہم اسلام کی آواز عرب سے باہر دور دور تک پہنچ گئی۔ (٣) غزوہ موتہ اور اس کے نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ اب اسلامی حکومت کسی بڑی سے بڑی سلطنت سے ٹکر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ قیصر روم کے داعیان سلطنت جو دعوت اسلام پر نتھنے پھلانے لگے تھے ان کے دماغ میں فرعونیت کا بت ٹوٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ غزوہ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیس دن مقیم رہے لیکن غسانیوں اور رومیوں کو مقابلے پر آنے کی جرات نہ ہوئی۔ (٤) اندرون عرب بھی مشرک قبائل اور بالخصوص قریش مکہ پر مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہوا کہ فتح مکہ کے موقع پر کسی بھی قریش اتحاد کو مقابلے پر آنے کی سکت نہ رہی۔ پھر یہ سب کچھ ان تبلیغی خطوط اور ان کے رد عمل کا نتیجہ تھا۔ [ ٤٤] وہ یہ نہیں جانتے کہ پیغمبری کیا چیز ہے؟ اور کس قدر ارفع و اعلیٰ مقام ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اللہ نے آپ کو کس قدر بلند مقام پر فائز کیا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ آپ کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی کس عظیم نعمت کا انکار کر رہے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ آپ کا انکار کرکے انھیں کس قدر برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔