سورة سبأ - آیت 19

فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تو ان لوگوں نے کہا، اے ہمارے رب ! ہمارے سفروں کے درمیان دوری بڑھا دے اور انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، تو ہم نے انہیں قصہ پارینہ بنا دیا، اور ان کو بالکل تر بتر کردیا، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے لئے صبر کرنے والا، اس کا شکر گذار ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٣٠] جب انسان مال و دولت کے نشہ میں مست ہوجاتا ہے اور اسے ہر طرف سے فرسودگی اور آسانیاں ہی میسر ہونے لگتی ہیں تو بعض دفعہ وہ اسی مستی میں بعض انہونی باتیں بھی بکنے لگتا ہے کہ لوگ جو سفر سے متعلق ایسی اور ایسی مشکلات بیان کرتے ہیں کہ اتنے دن کچھ کھانے کو ملا نہ پینے کو، یا ہم فلاں مقام پر جاکر راستہ بھول گئے تو ہمیں کوئی آدم زاد نظر نہ آتا تھا جس سے راستہ ہی پوچھ سکیں وغیرہ وغیرہ چنانچہ وہ آرزو کرنے لگے کہ ہمارا بھی کوئی سفر تو ایسا بھی ہونا چاہئے ممکن ہے ان لوگوں نے یہ بات زبان قال سے نہ کہی ہو زبان حال سے کہی ہو۔ یعنی دل میں ایسے خیالات آنے لگے ہوں۔ [ ٣١] زراعت کےعلاوہ تجارت کی بھی تباہی:۔ جب ان لوگوں کی زرعی معیشت تباہ ہوگئی تو یہی چیز ان کی تجارتی ترقی کی تباہی کا باعث بن گئی۔ جب اپنے مال کی پیداوار ہی ختم ہوجائے تو پھر تجارت کیسی؟ اگر بیرون ملک کی چیزیں ہی خریدی جائیں اور بیرون ملک ہی بیچی جائیں تو ان سے آخر کتنا منافع ہوسکتا ہے۔ اور اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کثیر آبادیاں جو اس شاہراہ کے کنارے آباد تھیں۔ وہاں سے اٹھ کر دوسرے مقامات کی طرف چلی گئیں کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار بھی زیادہ تر انہی تجارتی قافلوں کی اشیائے خوردنی کی خرید و فروخت پر تھا۔ اس طرح سبا کی تمام نو آبادیاں تباہ و برباد ہو کر رہ گئیں۔ [ ٣٢] صَبَّار اور شَکُوْرٌ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں اور یہ ایک مومن کی پوری طرز زندگی پر محیط ہیں۔ اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب اسے اللہ کی طرف سے نعمتیں عطا ہوتی ہیں تو وہ شکر بجا لاتا ہے اور زندگی بھر اس کا یہی معمول ہوتا ہے اور جب اسے کوئی مصیبت پیش آتی ہے وہ اسے صبر و استقامت سے برداشت کرتا ہے اور آئندہ کے لئے اللہ کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے۔ اس آیت کا یہی مفہوم ہے اور ہر مومن خوب سمجھ سکتا ہے کہ قوم سبا کے عروج کے اصل اسباب کیا تھے اور ان کی بربادی اور ہلاکت کا اصل سبب کیا چیز تھی۔