لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
یقیناً سبا (12) والوں کے لئے ان کے مقام رہائش میں نشانی تھی، یعنی دائیں اور بائیں دو باغ تھے، (ہم نے ان سے کہا کہ) تم اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، پاکیزہ شہر ہے اور گناہوں کو معاف کرنے والا رب ہے
[ ٢٤جن بھی غیب نہیں جانتے:۔ یہاں نشانی سے مراد تاریخی شہادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اللہ کی فرمانبردار اور شکر گزار بن کر رہتی ہے وہ پھلتی پھولتی اور ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہے اور جب وہ اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کرنے لگے تو بتدریج زوال آنا شروع ہوجاتا ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلے تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے یہی حال قوم سبا کا ہوا تھا۔ [ ٢٥] قوم سباکےحالات:۔ قوم سبا کا علاقہ عرب کا جنوب مغربی علاقہ تھا۔ اور یہی علاقہ آج کل یمن کا علاقہ کہلاتا ہے۔ سبا دراصل ایک شخص کا نام تھا جس کے دس بیٹے تھے۔ بعد میں یہی دس قبیلے بن گئے انہی میں سے چار بیٹے اپنے خاندان سمیت شام کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ اس قوم کے عروج و زوال کا زمانہ تیرہ صدیوں پر محیط ہے (٧٠٠ ق م تا ٤٥٠ء) ایک زمانہ تھا جب تہذیب و تمدن کے لحاظ سے اسی قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔ زراعت اور تجارت کے میدان میں ان لوگوں نے خوب ترقی کی۔ ان لوگوں کا آب پاشی کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس علاقہ کے دو طرف پہاڑی سلسلے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں نے بارش کا پانی روکنے اور ذخیرہ رکھنے کے لئے بند بنا رکھے تھے۔ ان کا دارالخلافہ مآرب تھا اور سب سے اعلیٰ اور بڑا عظیم الشان بند بھی اسی جگہ تعمیر کیا گیا تھا جو سد مآرب کے نام سے معروف تھا۔ ان کے علاقہ کے دونوں طرف پہاڑوں کے دامن میں باغات کا سینکڑوں میلوں میں پھیلا ہوا سلسلہ موجود تھا اور انسان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جس جگہ وہ کھڑا ہے اس کے دونوں طرف باغات ہی باغات ہیں۔ [ ٢٦] قوم سباپراللہ تعالیٰ کےاحسانات اور زرعی نظام:۔ بارشوں کے لحاظ سے یہ علاقہ کچھ اتنا زرخیز نہیں تھا۔ مگر ان لوگوں کے نظام آبپاشی کی عمدگی کی وجہ سے ملک کے اندر تین سو مربع میل کا علاقہ جنت نظیر بن گیا تھا۔ جس میں انواع و اقسام کے پھلوں کے درخت بھی تھے جن کی خوشبو سے یہ پوری سرزمین معطر بن گئی تھی اور کھیتی بھی خوب پیدا ہوتی تھی۔ اندرون ملک بخورات، دارچینی اور کھجور کے نہایت بلند و بالا درختوں کے جنگل تھے اور ان سے میٹھی میٹھی خوشبو تمام فضا کو خوشبودار بنا دیتی تھی۔ اور جب ہوا چلتی تو اس خوشبو سے سب لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اسی علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے بَلَدَۃٌ طَیِّبَۃٌکے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔ یعنی سرسبزی، زرخیزی، فضا کا خوشبو سے ہر وقت معمور رہنا، موسم اور آب و ہوا میں اعتدال، رزق کی فراوانی اور سامان عیش و شرت کی بہتات یہ وہ نعمتیں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا کر رکھی تھیں۔ مآرب کے ایک پہاڑی علاقہ میں گنجان درختوں کے درمیان حکمرانوں کے محلات واقع تھے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کر رکھی تھی۔