سورة الأحزاب - آیت 60

لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اگر منافقین (49) اور وہ لوگ جن کے دلوں میں کفر کی بیماری ہے، اور جو لوگ مدینہ میں افواہیں پھیلاتے ہیں، اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے، تو ہم آپ کو ان کے خلاف ابھار دیں گے، پھر وہ آپ کے ساتھ مدینہ میں کچھ ہی دنوں رہ پائیں گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٠] منافقوں اور یہودیوں کا گٹھ جوڑ واقعات کی روشنی میں :۔ یعنی ایک تو انھیں بدنظری اور شہوت پرستی کا روگ لگا ہوا ہے۔ دوسرے نفاق کا کہ وہ اپنے آپ کو شمار تو مسلمانوں میں کرتے ہیں۔ لیکن ہر معاملہ میں اس کے بدخواہ تنگ کرنے والے انھیں بدنام کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھی مدینہ کے یہود ہیں۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ہمراز اور دونوں مسلمانوں کے ایک جیسے دشمن ہیں۔ جو مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے مختلف قسم کی سنسنی خیز افواہیں گھڑتے اور پھیلاتے رہتے ہیں۔ مثلاً فلاں مقام پر مسلمانوں نے بڑی مار کھائی اور زک اٹھائی، فلاں مقام پر مسلمانوں کے لئے ایک بڑا بھاری لشکر جمع ہورہا ہے اور عنقریب مدینہ سے مسلمانوں کو ختم کردیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ منافقوں اور یہود مدینہ کی مسلمانوں کے خلاف مشترکہ ساز باز اور گٹھ جوڑ کی داستان بڑی طویل ہے۔ میں یہاں چند اشارات پر اکتفا کروں گا۔ جب بدر میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح عظیم عطا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صحابہ زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کو خوشخبری دینے کے لئے پہلے مدینہ بھیج دیا تھا۔ دریں اثنا، منافق یہ خبر مشہور کرچکے تھے کہ مسلمانوں کو عبرتناک شکست ہوئی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل کردیئے گئے۔ اس افواہ سے مدینہ کے مسلمان بہت سہمے ہوئے تھے کہ زید بن حارثہ دور سے اونٹنی پر سوار آتے دکھائی دیئے۔ ایک منافق کہنے لگا دیکھو زید بن حارثہ کا اترا ہوا چہرہ صاف بتا رہا ہے کہ مسلمان شکست کھاچکے ہیں پھر جب اصل حالات کا علم ہوا تو مدینہ تکبیر و تہلیل کے نعروں سے گونج اٹھا اور یہی نعرے یہود و منافقین کے قلب و جگر کو چھلنی چھلنی کررہے تھے۔ قبیلہ بنو قینقاع یہود مدینہ میں سب سے زیادہ امیر اور شرارتی قبیلہ تھا۔ اس نے جنگ بدر کے فوراً بعد شرارتیں شروع کردیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کرلیا اور یہ بد عہد قوم جلد ہی ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قتل کردینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مگر عبداللہ بن ابی کی پرزور سفارش کی بنا پر اپنی نرمی طبع کی بنا پر یہود کی جان بخشی کردی اور صرف جلاوطنی پر اکتفا کرلیا۔ جنگ احد کے موقعہ پر عبداللہ بن ابی منافق نے عین موقعہ پرجس طرح مسلمانوں کا ساتھ چھوڑا تھا وہ واقعہ پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اس وقت بھی منافقوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور مسلمانوں کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ یہود کے دوسرے قبیلہ بنونضیر نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چکی کا پاٹ گرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی سازش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے بچا لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو الٹی میٹم دے دیا کہ دس دن کے اندر اندر وہ مدینہ کو خالی کردیں اور جو کچھ لے جاسکتے ہیں لے جائیں دس دن بعد جو شخص بھی مدینہ میں نظر آیا اسے قتل کردیا جائے گا۔ (یہ واقعہ سورۃ حشر میں تفصیل سے آئے گا) جب یہود نکلنے کی تیاری کرنے لگے تو عبداللہ بن ابی نے انھیں کہلا بھیجا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں میرے پاس دو ہزار مسلح آدمی ہیں جو تمہاری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ لہٰذا اپنی جگہ پر برقرار رہو اور ڈٹ جاؤ۔ اس پیغام پر اس قبیلہ کے سردار حیی بن اخطب کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھجوا دیا کہ ہم یہاں سے نہیں نکلیں گے تم سے جو بن پڑتا ہے کرلو۔ اس چیلنج پر جب مسلمانوں نے یہود کا محاصرہ کرلیا تو نہ رئیس المنافقین خود ان کی مدد کو پہنچا نہ اس کے مردان جنگی۔ وہ بھی ویسا ہی بزدل نکلا جیسا کہ یہود تھے۔ بالآخر بنونضیر کو جلا وطن کردیا۔ غزوہ احزاب میں یہود کی عہد شکنی اور منافقوں کے کردار پر تبصرہ اسی سورۃ میں گزر چکا ہے۔ اسی عہد شکنی کی سزا دینے کے لئے جنگ احزاب کے فوراً بعد بنو قریظہ کا محاصرہ کرکے ان کا خاتمہ کردیا گیا۔ اب بچے کھچے سب یہودی خیبر کی طرف اکٹھے ہو رہے تھے۔ غزوہ بنی مصطلق میں منافقوں نے مسلمانوں کو دو طرح سے شدید نقصان پہنچایا۔ ایک تو عبداللہ بن ابی نے قبائلی عصبیت کو ابھار کر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور دوسرے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا کر مسلمانوں کے اخلاقی محاذ پر کاری ضرب لگائی اور انھیں کئی طرح کی پریشانیوں سے دوچار کردیا۔ (ان میں سے پہلا واقعہ تو سورۃ منافقون میں آئے گا اور دوسرا سورۃ نور میں گذر چکا ہے) [١٠١] اس سے مراد جنگ بنو قریظہ ہے جس کے بعد مدینہ یہودیوں سے مکمل طور پر پاک ہوگیا اور جو یہودی غزوہ بنو قینقاع اور بنونضیر کے موقعوں پر جلا وطن کئے تھے وہ سب خیبر کی طرف چلے گئے تھے۔