وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو، اور اگلے زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگار کے ساتھ نہ نکلا کرو، اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو، اللہ تو چاہتا ہے کہ تم سے یعنی نبی کے گھرانے والوں سے گندگی کو دور کر دے، اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے
[ ٤٧] بن سنور کر آزادانہ پھرنا :۔ قرن کو اگر مادہ ق رر سے مشتق قرار دیا جائے تو اس کا معنی وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے اور اگر اس کا مادہ و ق ر سمجھا جائے تو اس کا مطلب ہو کہ گھروں میں وقار کے ساتھ رہا کرو۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے یعنی عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہے۔ گویا اس آیت کی رو سے گھروں سے باہر آزادانہ آنے جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عورتوں کا اور بالخصوص ازواج النبی کا گھر سے باہر بے حجاب پھرنا سخت شاق گزرتا تھا۔ چنانچہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ آپ اپنی بیویوں کو پردہ میں رکھئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر کی بات پر کچھ توجہ نہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکثر رات کو باہر نکلا کرتیں اور (رفع حاجت کے لئے) مناصع کی طرف جاتیں۔ ایک رات سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ جو قد کی لمبی تھیں نکلیں تو سیدنا عمر لوگوں میں بیٹھے بیٹھے ہی کہنے لگے : ’’سودہ! ہم نے تجھے پہچان لیا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس توقع پر یہ بات کی کہ کسی طرح جلد پردہ کا حکم نازل ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آیہ حجاب نازل فرمائی۔ آیۃ حجاب کا نزول اور ضرورت سے نکلنے کی اجازت :۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے سنی تو گھر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : میں ضرورت سے باہر نکلی تھی، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے ایسی ایسی گفتگو کی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے اور بیٹھے رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ ایک ہڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی، اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنا شروع ہوئی۔ پھر وحی کی حالت موقوف ہوگئی اور ہڈی اسی طرح آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ نے ہاتھ سے رکھا نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم عورتوں کو ضرورت سے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب قولہ تعالیٰ لاتدخلوا بیوت النبی ) عورتوں کی حقیقی ضروریات :۔ گویا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ چاہتے تھے کہ عورتوں کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی لگ جائے۔ وحی الٰہی نے عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی تو لگا دی جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے مگر مکمل پابندی نہیں لگائی بلکہ ضرورت کے تحت عورتوں کو گھر سے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ عورتوں کی وہ ضروریات کیا ہوسکتی ہیں جن کی بنا پر وہ گھر سے نکل سکتی ہیں؟ وہ یہ ہیں : فریضہ حج کی ادائیگی، نماز کے لئے مسجد یا عید گاہ میں جانا، اپنے اقارب سے ملاقات اور ان کی تقاریب مثلاً نکاح اور شادی میں شمولیت یا مثلاً عیادت مریض اور تعزیت موتی کے لئے جانا۔ ان میں کچھ حاجات تو سفر کی نوعیت رکھتی ہیں اور بعض پر سفر کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اب ان کے متعلق ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری بیوی حج کے لئے نکلی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لوٹ جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لایخلون رجل۔۔) عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے :۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد جیسے اہم دینی فریضہ سے اس آدمی کو رخصت دے دی۔ مگر یہ گوارا نہیں فرمایا کہ اس کی عورت اکیلی حج پر چلی جائے۔ ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : کوئی عورت ایک دن رات کی مسافت کا سفر نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔ (ترمذی۔ ابو اب الرضاع ۔ باب کراہیۃ ان تسافر المرأۃ وحدھا۔) اس حدیث سے سفر کی تعریف بھی معلوم ہوگئی کہ سفر کا اطلاق اتنی مسافت پر ہوتا ہے جہاں سے کوئی شخص پیدل رات تک گھر واپس نہ پہنچ سکے۔ اس سے زیادہ مسافت ہو تو عورت محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکتی۔ ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جب عورت اکیلی گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے (یعنی اپنا آلہ کار بناتا ہے) (ترمذی۔ ابو اب الرضاع۔ باب کراھیۃ دخول علی المغیبات) ٤۔ عورتوں کو نماز کے لئے مسجد میں جانے کا حکم نہیں بلکہ صرف اجازت ہے اور اجازت بھی عدم ممانعت کی صورت میں ہے۔ یعنی عورت اپنے خاوند کی اجازت سے ہی مسجد میں جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ : ’’اگر تمہاری بیویاں تم سے مسجد جانے کی اجازت طلب کریں تو انھیں مت روکو‘‘ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب خروج النساء الی المساجد اذ لم یترتب علیہ فتنۃ) مسجد میں جانے کی مشروط اجازت :۔ امام مسلم نے باب کے عنوان میں یہ وضاحت بھی کردی کہ یہ اجازت بھی اس صورت میں ہوگی جب کسی فتنہ کا خدشہ نہ ہو۔ ٥۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی زندگی کے آخری ایام میں) فرمایا : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجودہ صورت حال دیکھتے تو عورتوں کو مساجد میں جانے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب خروج النساء الی المساجد باللیل) عورت کی بہترین جائے نماز گھر کی اندرونی جگہ ہے :۔ غور فرمائیے مسجد نبوی میں ایک نماز باجماعت کا ثواب ہزار نماز کے ثواب کے برابر ہے اور امام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو امام الانبیاء ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ام حمید ساعدیہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میری پسند خاطر یہ ہے کہ میں آپ کے ساتھ نماز ادا کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیرے گھر کی کوٹھری میں نماز تیرے گھر کے دالان سے افضل ہے اور دالان میں نماز صحن کی نماز سے افضل ہے۔ اور صحن کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے افضل ہے اور محلہ کی مسجد میں نماز جامع مسجد کی نماز سے افضل ہے‘‘ اور سیدہ ام سلمہ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں :’’ عورتوں کے لئے بہترین مساجد ان کے گھروں کے اندرونی حصے ہیں‘‘ (احمد۔ طبرانی) عورتوں کے مسجد میں جانے پر پابندیاں :۔ پھر اس طرح مسجد میں جانے پر بھی سنت نبوی نے کئی طرح کی پابندیاں لگائی ہیں مثلاً: (١) وہ صرف اندھیرے کی نمازوں (عشاء اور فجر) میں شامل ہوسکتی ہیں ماسوائے جمعہ اور عیدین کے (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب خروج النساء الی المساجد باللیل و الغلس) (٢) جس رات عورت مسجد میں جانا چاہے خوشبو نہیں لگا سکتی۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً) (٣) مردوں کے لئے بہتر صف پہلی ہے اور بری سب سے آخری صف ہے اور عورتوں کے لئے پہلی صف سب سے بری ہے اور آخری سب سے بہتر (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب امر النساء المصلیات وراء الرجال۔۔) (٤) اسے چاہئے کہ رکوع و سجود سے سر مردوں کے بعد اٹھائے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً) (٥) نماز باجماعت سے فراغت کے بعد فوراً مردوں سے پہلے مسجد سے نکل جائے۔ (مسلم و بخاری۔ حوالہ ایضاً) (٦) اگر واپسی پر ہجوم ہو اور مرد اور عورتوں کے مخلوط ہونے کا خطرہ ہو تو عورتیں راستہ کے کناروں پر چلیں۔ (ابوداؤد۔ کتاب الادب) (٧) عیدین کی نمازیں چونکہ کھلے میدان میں پڑھی جاتی ہیں لہٰذا وہاں عورتیں بالکل الگ مقام پر جمع ہوتی تھیں۔ (مسلم۔ کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ العیدین) آزادانہ اختلاط کی ممانعت :۔ اب دیکھئے مندرجہ بالا احادیث کی صراحت کے بعد مسلمان عورتوں کے لئے ان باتوں کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ وہ کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں۔ بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں۔ سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم ہو۔ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمات انجام دیں اور ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں مسافر نوازی کے لئے استعمال کی جائیں۔ یا گاہکوں میں کشش پیدا کرنے کی خاطر انھیں سیلزمین کے طور پر استعمال کیا جائے؟ [ ٤٨] جاہلیت کا لفظ دراصل قرآن نے اسلام کے مقابلہ پر استعمال فرمایا ہے۔ یعنی زندگی کا وہ طرز عمل جو اسلامی تہذیب و ثقافت، اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو وہ جاہلیت ہے۔ اور جاہلیت اولیٰ سے مراد اسلام سے پہلے کا تاریک دور ہے۔ اور اگر آج بھی معاشرہ میں وہی پرانی رسوم رائج ہوجائیں تو یہ دور بھی دور جاہلیت ہی کہلائے گا۔ [ ٤٩] تبرّج میں کیا کچھ شامل ہے؟ تبرّج بمعنی اپنی زینت، جسمانی محاسن اور میک اپ دوسروں کو اور بالخصوص مردوں کو دکھانے کی کوشش کرنا اور اس میں پانچ چیزیں شامل ہیں۔ (١) اپنے جسم کے محاسن کی نمائش (٢) زیورات کی نمائش اور جھنکار، (٣) پہنے ہوئے کپڑوں کی نمائش، (٤) رفتار میں بانکپن اور نازو ادا، (٥) خوشبویات کا استعمال جو غیروں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ [ ٥٠] اہل بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟ اہل بیت اور اہل خانہ یا گھر والے یہ سب ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور اس سے مراد کسی مرد کی بیوی یا بیویاں تو ضرور شامل ہوتی ہیں جیسے یہاں سیاق و سباق میں ازواج النبی کو ہی خطاب کیا جارہا ہے۔ اور اگر اولاد ہو تو وہ بھی اہل بیت میں شامل سمجھی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلمانوں کے ایک فرقہ نے اہل بیت سے ازواج النبی کو تو خارج کردیا اور اس کے بجائے اہل بیت سے مراد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ لے لیا اور اس کی بنیاد امام احمد کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں حضرات کو ایک چادر میں لے کر کہا : ( اللّٰھُمَّ ھٰوُلاَءِ اَھْلَ بَیْتِیْ۔۔) (یاللہ! یہ میرے گھر والے ہیں) حالانکہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صرف یہ تھی کہ اے اللہ تطہیر کے اس پاکیزہ عمل میں میری اولاد کو شامل کرلے اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے کیا کہ سیاق و سباق میں خطاب صرف ازواج النبی سے تھا۔ آپ کی اولاد سے نہیں تھا۔ [ ٥١] پاکیزگی کے مختلف پہلو :۔ یہاں ربط مضمون کے لحاظ سے رِجْسٌ (ناپاکی۔ گندگی) سے مراد صرف وہ حرکات اور افعال ہیں جو بے حیائی سے تعلق رکھتے ہیں اور شہوانی جذبات میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں اور سیاق و سباق میں یہی مضمون مذکور ہے۔ تاہم رجس کے معنی میں بہت وسعت ہے اور اس سے مراد شرک، کفر اور نفاق کی گندگی، اخلاق رذیلہ کی گندگی حتیٰ کہ ظاہری نجاست بھی شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایسی ناپاکی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اے ازواج النبی تم جاہلیت کے دور والی نمود و نمائش کے بجائے نمازیں قائم کرو، زکوٰ ۃ ادا کیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ کے رسول کو خرچ وغیرہ کے مطالبات کرکے پریشان نہ کرو۔ اس طرح اللہ تمہارے دلوں سے ہر طرح کی نجاست دور کرکے پاک و صاف بنا دے گا۔