أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
یہ لوگ تم مسلمانوں کا ساتھ دینے میں بڑے بخیل (١٦) ہیں اور جب دشمنوں کا خوف لاحق ہوتا ہے تو آپ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہوتی ہیں اس آدمی کی طرح جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو پھر جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو مال غنیمت کے بڑے ہی حریض بن کر اپنی تیز زبانوں کا تمہیں نشانہ بناتے ہیں یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں تھے اسی لئے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیئے اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بڑا آسان تھا
[ ٢٤] منافقوں کی بزدلی کا منظر :۔ ان کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ کوئی خطرے یا دشمن کے حملے کی بات بھی سن لیں تو ان پر پہلے سے موت کی غشی طاری ہونے لگتی ہے۔ یہ حال ہو تو وہ مسلمانوں کا ساتھ دے بھی کیسے سکتے ہیں؟ [ ٢٥] أشحّۃ (مادہ ش ح ح) شحیح ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مال سمیٹنے میں تو انتہا درجہ کا حریص ہو مگر خرچ کرنے میں سخت بخیل ہو۔ یعنی جب جنگ میں تمہارا ساتھ دینے کا معاملہ ہو تو اس معاملہ میں وہ انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں۔ مگر جب جنگ ختم ہوجائے میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہے، اموال غنیمت کی تقسیم کا موقعہ ہو تو پھر یہ لوگ مال پر مرے جاتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ یہ سارا مال ہمارے ہی ہاتھ آجائے پھر وہ طرح طرح کی اپنی وفاداریاں اور ہمدردیاں جتلانے لگتے ہیں تاکہ اموال غنیمت میں اپنا استحقاق ثابت کرسکیں۔ [ ٢٦] یعنی ان کے دلوں میں کفر ہی کفر چھپا ہے اور اعمال کی اخروی جزا کے لئے ایمان شرط اول ہے جو ان میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ان کے سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور جو بداعمالیاں ہیں ان پر ضرور گرفت ہوگی اور ان کی سب سے بڑی بدعملی نفاق ہے۔ [ ٢٧] یعنی اپنے اعمال کی جزا ثابت کرنے کے لئے ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ ان کے پاس کچھ زور اور قوت ہے کہ اللہ کے لئے ان کے اعمال کو برباد کرنا کچھ قابل التفات یا مشکل ہو۔