وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
اور جب انہوں نے دین کی راہ میں تکلیف و اذیت پر صبر کیا تو ہم نے ان میں بہت سے رہنما پیدا کئے جو ہمارے حکم کے مطابق ولگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے
[ ٢٦]امام کی لازمی خصوصیات:۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیشوائی کے لئے لازمی صفات کا ذکر فرمایا : پہلی صفت یہ ہے کہ ان کا تازیست یہ طرز عمل ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے احکام کی دعوت دیتے رہیں اور لوگوں کی رہنمائی کرتے رہیں دوسرے یہ کہ یہ کام پورے صبر و استقلال سے سرانجام دیں۔ اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ کی آیات اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھتے ہوں۔ جتنا زیادہ یقین پختہ ہوگا اسی قدر وہ صبر کرسکیں گے اور اسی قدر زیادہ وہ امامت یا پیشوائی کے حقدار ہوں گے۔ اور بنی اسرائیل میں سے جو شخص ان صفات کے حامل تھے انھیں اللہ تعالیٰ نے امامت کے منصب پر سرفراز فرما دیا۔