سورة السجدة - آیت 22

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس سے بڑھ کر ظالم (١٦) کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات پڑھ کر نصیحت کی جائے تو ان سے منہ پھیر لے، ہم بے شک مجرموں سے انتقام لے کر رہیں گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٢٣] یعنی قیامت کا دن دراصل مجرمین سے بدلہ لینے کا دن ہے۔ اس دن کوئی بھی مجرم اپنے جرم کی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ اور جو شخص اپنے کبرونخوت کی بنا پر اللہ کی آیات سننا تک گوارا نہیں کرتا بلکہ پہلے سے ہی منہ جوڑ کر چل دیتا ہے وہ تو سب سے بڑھ کر ظالم ہے۔ وہ بھلا اس دن انتقام سے کیسے بچ سکے گا ؟ واضح رہے کہ اللہ کی آیات کی بہت سی اقسام ہیں۔ مثلاً ایک تو وہ آیات ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں۔ جنہیں ہم آفاقی نشانیاں کہہ سکتے ہیں۔ اور ان میں سورج، چاند، ستارے، گردش لیل و نہار۔ زمین کی قوت روئیدگی۔ ہواؤں اور بارشوں کا نظام وغیرہ وغیرہ امور شامل ہیں۔ دوسری قسم وہ آیات ہیں جو انسان کے اندر کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان کی تخلیق، جسم کی ساخت، اعضاء کا خود کار نظام، اور محیرالعقول قوتیں جو اللہ نے انسان کے اندر رکھ دی ہیں۔ اسی جسم میں بعض ایسے داعیے بھی موجود ہیں جو انسان کے تحت الشعور میں ہوتے ہیں۔ لیکن وقت پڑنے پر فوراً جاگ اٹھتے ہیں۔ جیسے جب موت سامنے کھڑی نظر آئے تو مشرکین کیا دہریے تک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ اس قسم کو قرآن آیات انفس کا نام دیتا ہے تیسری قسم وہ تاریخی واقعات ہیں جن سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ کے مقابلہ میں سرکشی کی راہ اختیار کی اور اس کے رسول اور آیات کو جھٹلا دیا ہو اللہ نے اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس قسم کو شرعی اصطلاح میں تذکیر بایام اللہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ اصطلاح قرآن ہی کے الفاظ ﴿وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّـهِ ﴾سے ماخوذ ہے اور چوتھی قسم وہ نشانیاں ہیں جو مصائب کی شکل میں تنبیہ کے طور پر انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر انسانوں پر بصورت عذاب ادنیٰ نازل کی جاتی ہیں۔ اور جن کا ذکر سابقہ آیت میں ہوا ہے۔ اور پانچویں قسم اللہ تعالیٰ کی وہ آیات ہیں جو اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے انبیاء پر وقتاً فوقتاً نازل کیں۔ ان آیات میں دراصل انسان سابقہ چاروں قسم کی آیات کو غور و فکر کے لئے انسان کے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اللہ کی تمام ترآیات کا ماحصل:۔ اور یہی وہ دلائل یا آیات ہیں جن کے متعلق قرآن میں بار بار یہ مذکور ہوا ہے کہ یہ آیات بالکل واضح ہیں، روشن ہیں ان میں کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی ابہام نہیں، کوئی ٹیڑھ نہیں بلکہ سیدھی سادی اور عام فہم دلیلیں ہیں۔ قرآن کی آیات باقی چاروں قسم کی آیات کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور اسی کا نام ذکر اور تذکرہ ہے اور پہلی چاروں قسم کی آیات قرآن کی آیات کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ اور ان سب آیات کا ماحصل ایک ہی سامنے آتا ہے اور وہی دراصل انبیاء کی تعلیم کا نچوڑ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس کائنات کی تدبیر و تخلیق کرنے والی ہستی بڑی مقتدر اور حکیم ہستی ہے اور وہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اس میں دوئی یا کسی دوسرے کی شراکت کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسرے یہ کہ کائنات اور اس کی کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ لہٰذا انسان جو اشرف المخلوقات ہے کی زندگی کا بے مقصد ہونا ناممکنات سے ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح وہ طبعی اور اضطراری امور میں اللہ کے قوانین کے سامنے مجبور محض اور ان قوانین کا پابند ہے۔ اسی طرح وہ اپنے اختیاری امور میں بھی اللہ کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کردے اور کائنات کی باقی تمام اشیاء کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے صرف ایک ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح و تقدیس بیان کرے اور اسی کا ہو کر رہے۔ اور چوتھے یہ کہ جو شخص اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے اسے ضرور اس کا اچھا بدلہ ملنا چاہئے اور جو نافرمان ہو اسے ضرور سزا مل کر رہے اور چونکہ یہ دنیا کی زندگی اور ہر انسان کی پوری مدت عمر امتحان کا عرصہ ہے لہٰذا اس عرصہ امتحان کے بعد کامیاب اور ناکام انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ اس لحاظ سے روز آخرت کا قیام نہایت ضروری ہوا۔ ورنہ یہ دنیا ایک اندھیر نگری قرار پاتی ہے۔ نیز انسان جیسی اشرف المخلوقات مخلوق کا مقصد حیات ہی فوت ہوجاتا ہے۔