وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ
اور جو لوگ فسق و نافرمانی کی راہ اختیار کریں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جب بھی اس سے نکلنا چاہیں گے اس میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو اس آگ کا عذاب جسے تم جھٹلاتے تھے۔
[ ٢٢] برے عذاب سے مراد قیامت کے دن جہنم کا عذاب ہے اور عذاب الادنیٰ سے مراد دنیا میں پہنچنے والے مصائب ہیں۔ جو انفرادی طور پر بھی ہر انسان کو دیکھنا پڑتے ہیں۔ مثلاً بیماریاں، مالی نقصان، عزیز و اقرباء کی موت یا کئی دوسرے حادثے اور اجتماعی زندگی کے مصائب الگ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً قحط، زلزلے، وبا، فسادات اور لڑائیاں جن سے بیک وقت ہزاروں انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے ہلکے ہلکے عذاب ہی نہیں بلکہ تنبیہات بھی ہیں کہ وہ بروقت سنبھل جائیں اور انھیں معلوم ہوجائے کہ ان سے بالاتر کوئی ہستی موجود ہے جو ان کی بداعمالیوں پر ان کی گرفت کرسکتی ہے۔ اور اس سے انھیں اپنا عقیدہ اور عمل درست کرنے میں مدد ملے۔ اس طرح شاید وہ بداعمالیوں سے اور آخرت میں ان کے برے انجام سے بچ جائیں۔