سورة السجدة - آیت 16

تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

رات میں ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اپنے رب کو اس کے عذاب کے ڈر سے اور اس کی جنت کی لالچ میں پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ١٨]اللہ سے ڈرنےکےباوجودحسن ظن رکھنےکاحکم:۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ساری رات سوتے ہی نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ جس طرح دنیا دار لوگ دن بھر محنت کرکے رات کو دادعیش دیتے ہیں۔ رقص و سرود کی محفلیں قائم کرتے ہیں۔ شراب نوشی کے دور چلتے ہیں۔ سینما اور کلب گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹی وی پر ہی اپنا دل بہلا لیتے ہیں۔ اللہ کے بندے ان کے برعکس اپنا وقت اللہ کی یاد میں گزارتے ہیں۔ یہی ان کی تفریح طبع ہوتی ہے۔ وہ راتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور جتنا وقت دنیا دار اللہ کی نافرمانیوں میں گزارتے ہیں اللہ کے بندے اس کی فرمانبرداری اور عبادت میں گزارتے ہیں۔ وہ عذاب جہنم سے ڈر کر اور جنت کی امید رکھ کر اللہ کو پکارتے ہیں یا عبادت تو اللہ کی رحمت اور مہربانی کی امید رکھ کر کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ کہیں ان کے اس عمل میں کچھ تقصیر نہ رہ جائے۔ اور وہ اللہ کے ہاں مقبول ہی نہ ہو۔ تاہم ان میں اللہ سے حسن ظن یا اس کی رحمت اور مہربانی کا پہلا ہی غالب رہتا ہے۔ اور یہ پہلو زندگی بھر غالب رہتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ عزوجل سے حسن ظن نہ رکھتا ہو‘‘ (مسلم۔ کتاب الجنۃ۔ باب الامر بحسن الظن باللہ تعالیٰ عند الموت) اگرچہ اس آیت سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس آیت میں بستروں سے الگ رہنے اور اللہ کو پکارنے سے مراد نماز تہجد ہے۔ جس کی احادیث میں بہت فضیلت مذکور ہے۔ تاہم بعض علماء نے اس سے صبح کی نماز مراد لی ہے۔ بعض نے عشاء کی اور بعض نے نماز مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل کی۔ تاہم راجح بات وہی معلوم ہوتی ہے جو اولاً مذکور ہوئی۔ [ ١٩] غریب اور مفلس لوگوں کوبھی صدقہ کرناضروری ہے:۔اس سے مراد صرف مال حلال ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرام مال کی نسبت کبھی اپنی طرف نہیں کی۔ نہ ہی ایسے مال سے صدقہ قبول کرتا ہے۔ اور خرچ کرنے سے بھی مراد عیاشیوں پر خرچ کرنا نہیں بلکہ جائز طریقوں سے خرچ کرنا ہے خواہ وہ اپنی ذات پر ہو، اہل و عیال پر ہو، قرابتداروں اور دوسرے محتاجوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے پر ہو۔ اور اگر حلال مال سے دوسروں پر خرچ کرنے کی توفیق میسر نہیں ہوتی تو بھی حرام کمائی سے بہرحال بچنا چاہئے اس پر قناعت اور اللہ کا شکر کرنا چاہئے۔ اور اس میں سے خواہ بہت تھوڑا ہی سہی، کچھ نہ کچھ ضرور خرچ کرنا چاہئے۔ کیونکہ غریبوں کو بھی تزکیہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ بخل کے مرض سے ان کا بھی دل پاک ہونا چاہئے اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’آگ سے اپنا بچاؤ کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے سے ہی کرو‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰ ۃ۔ باب اتقوالنارولوبشق تمرۃ)