إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
بے شک اللہ کو ہی قیامت کا علم (٢٦) ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور ویہ جانتا ہے اسے جو ماں کے رحم میں ہوتا ہے اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ زمین کے کس خطے میں اس کی موت واقع ہوگی، بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا باخبر ہے
[٤٩] حدیث جبریل :۔ کفار مکہ اکثر آپ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ کتاب و سنت میں اس کے کئی الگ الگ جواب مذکور ہیں۔ مثلاً ایک جواب یہ ہے کہ قیامت جب بھی آئی یک لخت ہی آجائے گی۔ کبھی قرب قیامت کی علامات بتلا دی گئیں۔ ایک صحابی نے یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پوچھا : کیا تم نے اس کے لئے کچھ تیاری کر رکھی ہے؟ ایک سائل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ جو شخص مرگیا بس اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ لیکن اس سوال کا بالکل ٹھیک جواب یہی ہے کہ قیامت کا علم صرف اللہ کو ہے۔ کسی نبی کو بھی نہیں حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہ تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا (یہ جبریل علیہ السلام تھے) اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایمان یہ ہے کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے، اور (قیامت کے دن) ان سے ملنے کا یقین رکھے اور مر کر جی اٹھنے پر ایمان لائے، پھر وہ کہنے لگا : ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ تو صرف اللہ ہی کی پرستش کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے نماز اور زکوٰ ۃ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے۔ پھر اس نے پوچھا: ’’احسان کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی یوں عبادت کرے جیسے اسے دیکھ رہا ہے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو کم از کم یہ سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! قیامت کب آئے گی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس سے یہ سوال کر رہے ہو وہ بھی سائل سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی دونوں ایک جیسے ناواقف ہیں) البتہ میں تجھے قیامت کی وہ نشانیاں بتلاتا ہوں ایک یہ ہے کہ عورت اپنا مالک جنے گی۔ دوسرے یہ کہ ننگے پاؤں پھرنے والے اور ننگے بدن (گنوار قسم کے لوگ) لوگوں کے رئیس ہوں گے۔ دیکھو ان پانچ باتوں میں سے ایک قیامت بھی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی، اور بارش کب برسے گی، اور ماؤں کے پیٹ میں کیا کچھ (تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے) پھر وہ شخص لوٹ کر چل دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ذرا اسے بلا لاؤ۔ لوگ بلانے لگے تو دیکھا وہاں کوئی نہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ جبرئیل تھے جو آپ لوگوں کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ حدیث، حدیث جبرئیل علیہ السلام کے نام سے مشہور ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کا معین وقت نہ جبرئیل علیہ السلام کو معلوم تھا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو۔ اس کا معین وقت نہ بتلانے میں حکمت یہ ہے کہ قیامت کا معین وقت اور اسی طرح کسی کو اس کی موت کا متعین وقت بتلا دینے سے اس دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ اسی لئے نہ موت کے وقت کا ایمان مقبول ہے اور نہ قیامت کو مقبول ہوگا جبکہ جب قیامت کی صریح علامات مثلاً سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ ظاہر ہو گئیں تو اس وقت بھی ایمان لانا مقبول نہ ہوگا۔ [ ٥٠] غیب کے جن امورکا انسان کو علم نہیں ہوسکتا:۔ قیامت کے علاوہ چار باتیں اور بھی ہیں۔ جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان چار میں سے پہلی بات یہ ہے کہ نفع رساں بارش کب ہوگی۔ دوسری یہ کہ مادر رحم میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جب جنین میں روح ڈالی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ اس کی عمر، اس کی روزی، (یعنی اسے کتنا رزق ملے گا) خوشحال ہوگا یا تنگ دست، نیز یہ کہ نیک بخت ہوگا یا بدبخت یہ باتیں بھی مادر رحم کے مراحل میں شامل ہیں۔ تیسری یہ بات کہ وہ کل کیا کرے گا یعنی اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں۔ بلکہ اسے کل تک جینا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ اور چوتھی یہ بات کہ وہ کب اور کہاں مرے گا۔ یہ چار باتیں ایسی ہیں جن سے ہر انسان کو دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لئے بالخصوص ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ورنہ اور بھی کئی امور ایسے ہیں۔ جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔